طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر اب مزید کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ طالبان کا خیال ہے کہ ان مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے پیر کی شب اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغان حکومت قیدیوں کی رہائی میں حیلے بہانے کر رہی ہے اور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی ذمہ دار صدر اشرف غنی کی انتظامیہ ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے طالبان نے قیدیوں کی شناخت اور تصدیق کے لیے ایک تیکنیکی ٹیم کابل بھیجی تھی۔ لیکن وہ ٹیم اب ان بے نتیجہ مذاکرات میں شریک نہیں ہو گی جو متعلقہ فریقین کے درمیان کل سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔
(2/2)But, unfortunately, their release has been delayed under one pretext or another till now. Therefore, our technical team will not participate in fruitless meetings with relevant sides starting from tomorrow.
— Suhail Shaheen (@suhailshaheen1) April 6, 2020
خیال رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی 10 مارچ تک شروع ہو جائے گی۔ لیکن افغانستان میں جاری سیاسی چپقلش کے باعث یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لیے طالبان کی ایک ٹیم کابل میں افغان حکام سے گزشتہ کئی روز سے مذاکرات کر رہی تھی۔
امن معاہدے کے مطابق افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔ اس کے بدلے طالبان بھی اپنی قید میں موجود ایک ہزار افغان قیدی رہا کریں گے جس میں بڑی تعداد افغان اہلکاروں کی بتائی جاتی ہے۔
امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ امریکہ آئندہ سال جولائی تک افغانستان میں موجود اپنے فوجیوں کا انخلا کرے گا اور ان کی تعداد میں کمی کی جائے گی۔
البتہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ ہفتے سے قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان کی پیچیدہ صورت حال امن عمل کے لیے خطرہافغان حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ایک رکن متین بیگ نے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ طالبان اپنے 15 اعلیٰ کمانڈرز کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا "ہم اپنے لوگوں کے قاتلوں کو رہا نہیں کر سکتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ رہا ہو کر دوبارہ میدان جنگ میں جائیں اور پورے صوبے پر قبضہ کر لیں۔"
متین بیگ نے کہا کہ حکومت 400 سے زائد طالبان رہنماؤں کو خیر سگالی کے تحت رہا کرنے کے لیے تیار ہے جو زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔ لیکن طالبان اس پیشکش کو ٹھکرا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ سہیل شاہین کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دو روز قبل طالبان نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی فروری میں طے پانے امن معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ نا صرف طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہو رہی ہے بلکہ طالبان کے غیر عسکری اہداف کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
طالبان کا کہنا تھا کہ اگر دوحہ معاہدے کی پابندی نہیں کی جاتی تو امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ نے طالبان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے فوجی کارروائیاں افغان فورسز کے خلاف کارروائیوں کی دفاع میں کی جا رہی ہیں۔