رسائی کے لنکس

 طالبان امریکہ معاہدہ اور افغانستان میں امن کے امکانات


امریکی مذاکرات کار خلیل زلمے اور طالبان کے نمائندے ملا غنی برادر دوحہ میں امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد مصافحہ کر رہے ہیں۔ 29 فروری 2020
امریکی مذاکرات کار خلیل زلمے اور طالبان کے نمائندے ملا غنی برادر دوحہ میں امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد مصافحہ کر رہے ہیں۔ 29 فروری 2020

طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں حقیقی امن کے قیام کے امکانات فی الحال زیادہ روشن نہیں ہیں۔ خاص طور سے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

مذکورہ معاہدے کے تحت بین الاافغان مذاکرات سے پہلے طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔ جب کہ کابل حکومت اس رہائی کو بار بار ملتوی کر چکی ہے۔

ہر چند کہ ان مذاکرات کے لئے افغان حکومت نے ایک ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے اور گزشتہ ہفتے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک وڈیو کانفرنس بھی ہو چکی ہے لیکن بات آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔

ممتاز اسکالر اور افغان امور کے ماہر مڈ ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر وائن بام نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی پابند نہیں ہے اور امریکہ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے لئے دباؤ کے سبب وہ یہ بات مان تو گئی ہے لیکن اس میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ جس کے سبب ایک جانب تو امن کا عمل آگے نہیں بڑھ پا رہا اور دوسری جانب افغان حکومت کی پوزیشن کمزور نظر آ رہی ہے۔

ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ اب تک کی صورت حال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طالبان جو کچھ چاہتے تھے وہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ جس سے افغان حکومت کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سب سے قطع نظر ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے نظریات بہت مختلف ہیں۔ طالبان ہر صورت ایک اسلامی امارت کا قیام چاہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حالات کے پیش نظر وہ اس امارت کے اصول و ضوابط میں کچھ نرمی کرنے کے لئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے میں طالبان کے اس عزم کے باوجود کہ تشدد کم کیا جائے گا، اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ان حالات میں کسی قابل ذکر تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آتے۔

ڈاکٹر وائن بام نے بین الاافغان مذاکرات کے حوالے سے مزید کہا کہ طالبان نے اپنے رویے سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کی حیثیت دوسرے گروپوں کے مساوی ہی سمجھتے ہیں۔ اور اسے کوئی ترجیح دینے کو تیار نہیں ہیں۔

ادھر صدر اشرف غنی کی صدارتی مہم کے ایک سینئر عہدیدار اور کابل یونیورسٹی کے پروفیسر نجیب اللہ اسد نے ڈاکٹر وائن بام سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں تشدد بڑھ رہا ہے، حالانکہ اس معاہدے سے قطع نظر اقوام متحدہ بھی پوری دنیا سے مسلسل اپیل کر رہی ہے کہ دنیا میں جہاں بھی جنگیں ہو رہی ہیں، کرونا وائرس کے سبب ان جنگوں کو ختم کر کے پوری توجہ کرونا وائرس کے خلاف جنگ پر دی جائے جو اس وقت عالم انسانیت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ لیکن طالبان اس اپیل پر بھی کان نہیں دھر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نجیب کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے اور ریپبلیکن پارٹی افغانستان میں امن کے قیام اور فوجوں کی واپسی کو اپنے ایک کارنامے کے طور پر پیش کرنا چاہ رہی ہے۔ اور خود افغان حکومت پر بھی معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے حوالے سے امریکہ کا دباؤ ہے اور افغان حکومت اپنی کمزور سفارت کاری کے سبب اپنا موقف مدلل انداز میں پیش نہیں کر پا رہی ہے۔ اور وہ خاص طور پر اس لئے بھی کمزور نظر آ رہی ہے کہ سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ حکومت کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔

لیکن انہوں نے کہا کہ ان کی اطلاعات یہ ہیں کہ پیر کے روز صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے اور خیال ہے کہ آئندہ ایک ہفتے میں یہ مسئلہ بھی طے کر لیا جائے گا۔

حالات کچھ بھی ہوں۔ مذاکرات ہوں نہ ہوں جب تک امن قائم نہیں ہوتا صورت حال کا اصل شکار افغان عوام ہیں جو عشروں سے یا تو جنگ کے مصائب بھگت رہے ہیں، یا پناہ گزین بن کر دوسرے ملکوں کے کیمپوں میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG