پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منگل کی شب ایک اور صحافی اسد علی طور پر 'نامعلوم افراد' کے مبینہ تشدد کے بعد صحافتی تنظیموں، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وہیں اسلام آباد جیسے شہر میں پے درپے ایسے واقعات رونما ہونے پر سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کا بل پیش کیا گیا ہے جس کے بعد صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والے عناصر کی نشان دہی اور اُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے مطالبے میں شدت آ گئی ہے۔
منگل کی شب تین نامعلوم افراد نے اسلام آباد کے علاقے ایف الیون میں اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی گھس کر اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث وہ زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے جمعے کو اس واقعے پر ملک گیر احتجاج کی کال بھی دی ہے۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان نے ڈی آئی جی آپریشنز کی زیر نگرانی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم معاملے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کرے گی۔
تحقیقاتی ٹیم کے ممبران میں ایس پی صدر زون ،ڈی ایس پی رمنا ،ڈی ایس پی اسپیشل برانچ ،انچارج انوسٹی گیشن رمنا شامل ہیں۔
واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین افراد اسد علی طور کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد فلیٹ سے باہر جا رہے ہیں۔
CCTV footage showing three assailants rushing out of Journalist #AsadToor’s appartement after attacking him. pic.twitter.com/W2qHBcIfVi
— Ariba Jalbani (@AribaJB) May 25, 2021
خیال رہے کہ اسد علی طور سے قبل گزشتہ ماہ سینئر صحافی ابصار عالم پر اس وقت نامعلوم شخص نے فائرنگ کر دی تھی جب وہ اپنے گھر کے قریب واک کر رہے تھے۔
اس سے قبل صحافی مطیع اللہ جان کو بھی نامعلوم افراد اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ تاہم اُنہیں بعدازاں چھوڑ دیا گیا تھا۔
Three persons entered his house, tied him up and tortured him. pic.twitter.com/NWYJg3fYA4
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) May 25, 2021
مذکورہ تینوں صحافیوں کو حکومت اور اسٹیبشلمنٹ کا ناقد سمجھا جاتا ہے۔
اسد طور کی جانب سے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ تینوں نامعلوم افراد ان پر مبینہ تشدد کے دوران ان سے سوالات کرتے رہے اور بار بار کہتے رہے کہ ہمارا نام لینا چھوڑ دو۔
البتہ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسد طور پر حملے کا نوٹس لیا جب کہ وزیرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کو سی سی ٹی وی کیمروں میں دیکھا جا سکتا ہے، وزیرِ اطلاعات ضروری ایکشن لینے کے لیے پہلے ہی پولیس سے رابطے میں ہیں۔
Condemn attack on journalist Asad Toor. Perpetrators are on the CCTV cameras and Info Min @fawadchaudhry has already been in touch with the police to take necessary action.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) May 26, 2021
اس بارے میں ماضی میں تشدد کے شکار ہونے والے سینئر صحافی عمر چیمہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان حملوں میں بہت طاقت ور لوگ ملوث ہیں اور پولیس ان کے سامنے بے بس ہے۔
عمر چیمہ کے بقول صحافی ان کے لیے آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے حملوں کے ذریعے باقی تمام صحافیوں کو پیغام دیا جاتا ہے کہ جو بھی ایسا کرے گا اسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
'صحافیوں پر حملے پولیس اور سول حکومت کی کمزوری ہے'
سینئر صحافی اور گزشتہ برس ایک دن تک اغوا رہنے والے صحافی مطیع اللہ جان اس بات سے متفق ہیں کہ دراصل یہ سویلین حکومت اور پولیس کی کمزوری ہے کہ ہر حملے کے بعد صرف بیانات سامنے آتے ہیں اور عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔
اُن کے بقول اسلام آباد جیسا شہر جس میں کروڑوں روپے مالیت کے سیف سٹی کے کیمرے نصب ہیں۔ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز دستیاب ہیں لیکن اس کے باوجود ذمہ داران گرفتار نہیں ہوتے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا۔
صحافیوں کا اجتجاج
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کہتے ہیں کہ صحافیوں پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جمعے کو ملک بھر میں یومِ اجتجاج اور ملک بھر کے پریس کلبز کے باہر اجتجاج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومتی کو پہلے ہی 19 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس میں سے پہلا نکتہ ہی صحافیوں پر حملوں سے متعلق ہے۔ ہمارا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ہونا تھا لیکن کرونا کی صورتِ حال کے باعث اب تک یہ مؤخر ہو رہا ہے لیکن صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیشِ نظر اب ہمیں اجتجاج کرنا ہو گا۔
صحافیوں کے تحفظ کا بل کتنا مؤثر؟
اسد طور پر نامعلوم افراد نے حملہ ایسے وقت کیا ہے جب حکومت نے چند روز قبل ہی قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کا بل پیش کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کا بل پیش کیے جانے کے کچھ روز بعد ہی ہونے والے اس حملے کے بارے میں عمر چیمہ کہتے ہیں کہ قانون کا ہونا قانون کے نہ ہونے سے بہرحال بہتر ہے لیکن اصل مسئلہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔
اُن کے بقول اگر صحافیوں کے تحفظ کا الگ سے قانون نہ بھی تو موجودہ قوانین میں وہ تمام شقیں موجود ہیں جو کسی بھی عام آدمی کا تحفظ کرتی ہیں لیکن ان پر عمل کرنے کی نیت کسی حکومت میں دیکھنے میں نہیں آئی۔
عمر چیمہ کہتے ہیں کہ یہ بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے لیکن اگر اس پر عمل درآمد ہی نہ ہو تو کیا کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی مذمت
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں اسد طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ پر لیکچر دینے کے بجائے میڈیا کا تحفظ یقینی بنائے۔
آئے روز اسلام آباد میں صحافیوں پر حملے ہورہے ہیں اور حکومت ملزمان کے تعین اور انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام ہے۔ اللہ تعالی اسد طور کو صحت کاملہ عطا فرمائے آمین
— Marriyum Aurangzeb (@Marriyum_A) May 25, 2021
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جب صحافی اور آزادیٔ اظہا حملوں کی زد میں ہوں تو حکومت کی بزدلی مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سچ سامنے لانے کے لیے جامع اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اسدطور پر اسلام آباد میں ہونے والا حملہ انتہائی قابل مذمت ہے، اس حملے سے اسد طور کی آواز مزید توانا اور بلند ہوگی، جب صحافی اور آزادی اظہار حملوں کی زد میں ہوں تو حکومت کی بزدلی مزید نمایاں ہوجاتی ہے، اس معاملے میں ہم سچ سامنے لانے کے لئے جامع اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں https://t.co/kdPIniwX3s
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) May 26, 2021
صحافیوں کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی اسد طور پر حملے کی مذمت کی ہے۔ کمیشن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ اس حملے کو آزادیٔ اظہار اور میڈیا کی آزادی پر حملے کے طو پر دیکھتے ہیں۔
HRCP strongly condemns the brutal assault on journalist @AsadAToor by three unknown men who barged into his residence. We see it as yet another attack on freedom of expression and a free press. HRCP demands that the authorities apprehend and charge the assailants immediately.
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) May 26, 2021
اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی ڈاکٹر مصطفیٰ تنویر کے مطابق اسد طور پر حملے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اور ملزمان کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔