یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ترکی کوششیں جاری

ترکی کی یورپین یونین کی رکنیت کی کوشش کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے یورپی یونین کے اعلیٰ عہدے دار استنبول میں اپنے ترک ہم منصبوں سے ملے ہیں۔ ترکی کی رکنیت کی تجویز میں دلچسپی موجود ہے لیکن اس کے حصول میں رکاوٹیں اب بھی باقی ہیں۔

ترکی اور یورپی یونین کے ڈائیلاگ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے، یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے ترکی کی روز افزوں علاقائی اہمیت اور بقیہ یورپ کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعاون کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

’’میں سب سے پہلے یہ کہنا چاہوں گی کہ ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کے لیے جس مثبت ایجنڈے پر کام شروع کیا گیا ہے مجھے امید ہے کہ اس سے ترکی کی رکنیت کے عمل کو مہمیز ملے گی۔ خارجہ پالیسی میں ہمارے تعلقات بلا شبہ نہایت عمدہ ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم اپنے ہمسایہ ملکوں میں اپنے مشترکہ مسائل میں دلچسپی لیں۔‘‘

ایشٹن نے ترکی کی تعریف کی کہ اس نے 20,000 شامی پناہ گزینوں کو آج کل ترکی میں پناہ دے رکھی ہے اور اس نے ایران کے نیوکلیئر توانائی کے پروگرام کے بارے میں سفارتی بحران کو طے کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد کے لیے دو اجلاسوں کی میزبانی کی ہے۔

برسلز میں اسی پس منظر میں گذشتہ ماہ ’’پازٹیو ایجنڈا‘‘ شروع کیا گیا تا کہ ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کی کوشش میں نئے سرے سے جان ڈالی جا سکے۔

آج کل ترکی کی درخواست تعطل کا شکار ہے کیوں کہ ترکی کو رکنیت کے لیے جو شرائط پوری کرنی ہے یورپی یونین کے بعض ملکوں نے انہیں بلاک کر رکھا ہے۔

اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے مثبت ایجنڈے کے ذریعے، ان امور پر غیر رسمی بات چیت شروع ہو گی جن کی وجہ سے ترکی کی رکنیت کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔

استنبول میں جمعرات کی میٹنگ میں ان ترکوں پر جو یورپی یونین کے ملکوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں ویزا کی پابندیاں نرم کرنے پر بات چیت ہوئی۔ انقرہ اور برسلز کے درمیان یہ ایک بڑا اختلافی مسئلہ ہے۔

لیکن ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد داؤد اوغلو نے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے، ایک اور مسئلے کا ذکر کیا جو یورپی یونین کے ساتھ کشیدگی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔

داؤد اوغلو نے کہا کہ جب جولائی میں قبرص یورپی یونین کی صدارت سنبھال لے گا، تو ترکی یورپی یونین کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا لیکن کسی ایسے پروگرام میں شرکت نہیں کرے گا جس کی صدارت قبرص کے پاس ہو۔

قبرص، ترک اور یونانی قبرصیوں کے درمیان بٹا ہوا ہے اور ترکی نے منقسم شدہ قبرص کو ایک خود مختار مملکت کی حیثیت سےتسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت میں جو اہم مسائل حائل ہیں، ان میں سے ایک بڑا مسئلہ قبرص کا ہے۔ترکی کے لیے ایک اور مشکل مسئلہ انسانی حقوق کا ہے۔ یورپی یونین کے

کمشنر سٹیفن فلیو نے اپنے ترک ہم منصبوں کا یاد دلایا کہ اس شعبے میں ابھی انہیں بہت سا کام کرنا ہے۔ ’’میں نے اس میٹنگ کو ترکی میں قانون سازوں، علمی شخصیتوں اور طالب علموں کی بڑھتی ہوئی گرفتاریوں اور پریس کے آزادی کے بارے میں اپنی تشویش کے اظہار کے لیے استعمال کیا۔‘‘

جمعرات کو دو ترک طالب علموں کو دہشت گردی کے انسداد کے قوانین کے تحت 8 سال قید کی سزا دی گئی۔ انھوں نے وزیرِ اعظم کی تقریر کے دوران مفت تعلیم کے مطالبے کا پرچم لہرایا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ انہیں قوانین کے تحت، 100 سے زیادہ صحافی جیل میں بند ہیں۔

تا ہم مبصرین کہتے ہیں کہ اگرچہ یورپی یونین کی رکنیت کے سلسلے میں ترکی کو بہت سے مسائل درپیش ہیں لیکن علاقے میں ترکی کی اہمیت میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کی رکنیت کے سوال کو زندہ رکھنے میں برسلز کی دلچسپی اب بھی قائم ہے۔