شام میں کردوں کے خلاف ترک فوج کی کارروائیاں

شام میں کردوں کے خلاف نو اکتوبر سے شروع ہونے والی ترکی کی فضائی کارروائی کے بعد زمینی کارروائی بھی کی جاری ہے جس میں اسے شامی باغیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

سیرین آبزرویٹری کے مطابق ترک فورسز اور اس کے اتحادیوں نے 11 دیہاتوں پر قبضہ کرلیا ہے جب کہ کردوں کے زیر کنٹرول علاقے 'تل ابیاد' میں شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

ترک میڈیا کے مطابق شام کے مغربی علاقے 'راس العین' میں بھی چھڑپیں ہو رہی ہیں جو کردوں کا دوسرا بڑا ٹھکانہ ہے۔

شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ ترکی اور اس کے اتحادیوں کی کردوں سے شام میں 120 کلو میٹر کے علاقے میں لڑائی ہو رہی ہے۔ 

اِن جھڑپوں کے نتیجے میں سرحدی علاقے میں آباد ہزاروں افراد نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ترکی کے آپریشن کے بعد تقریباً 70 ہزار شامی شہریوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔

شام کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا جس کے دوران سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے ترکی کی شام میں فوجی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا۔

سلامتی کونسل کے پانچ مستقل یورپی رکن ممالک نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر شروع کی جانے والی کارروائی کو فوری طور پر روکے۔

یاد رہے کہ کرد ملیشیا شام سے داعش کے خاتمے کے لیے امریکہ کے اتحادی تھے۔ تاہم امریکی صدر نے چند روز قبل شام سے امریکی فوج کا انخلا یقینی بنایا ہے جس پر ان کے عرب اتحادیوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔