کرُد اور داعش آمنے سامنے، شام سے نقل مکانی میں اضافہ

فائل

سرحد پار نقل مکانی گذشتہ ہفتے اُس وقت شروع ہوئی جب دولت اسلامیہ نے کوبانے میں اپنی بھرپور بَری کارروائی کا مظاہرہ کیا، جس علاقے کو ’عین العرب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے

اپنے سرحدی قصبوں کے دفاع کے لیے، شام کے شمالی علاقے کے کُرد عسکریت پسند داعش کے شدت پسندوں سے لڑ رہے ہیں، ایسے میں جب ہمسایہ ترکی کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 130000سے تجاوز کر گئی ہے۔

سرحد پار نقل مکانی گذشتہ ہفتے اُس وقت شروع ہوئی جب دولت اسلامیہ نے کوبانے میں اپنی بھرپور بَری کارروائی کا مظاہرہ کیا، جس علاقے کو ’عین العرب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

شام کے ایک کُرد نے بتایا ہے کہ سلامتی کی تلاش میں وہ اپنے اہل خانہ کو لے کر ترکی آئے تھے، لیکن بعد میں اُنھوں نے داعش سے نمٹنے کے لیے میدانِ جنگ کا رُخ کیا۔

بقول اُن کے، ’ہم آئے اور اپنے بیوی بچے یہاں چھوڑ کر واپس جار ہے ہیں۔ ہم اس لیے واپس جانا چاہتے ہیں، تاکہ ہم لڑ سکیں۔ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔ اگر ہمارے ہاتھوں سے کوبانے چلا گیا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم رجووا (شامی کردستان) علاقہ کھو دیں گے‘۔

آج دوسرے روز، ترک فوج نے سرحدی چوکی پر چیخ و پکار کی دل خراش آوازیں سنیں، ایسے میں جب چوکی کے قریب لوگوں کے مجمعے، پناہ گزینوں کے رشتہ داروں اور اُن افراد کو جو شام کی جنگ سے بیزار آکر سرحد پار کرنے کے خواہشمند تھے، اُنھیں منتشر کرنے کے لیے تیز دھار والا پانی پھینکا گیا۔


کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اپیل کی ہے کہ شام سے ساتھ ملنے والے سرحدی قصبہ جات کا دفاع کرنے کے لیے اُنھیں اسلحہ فراہم کیا جائے۔