شمالی وزیرستان میں دھمکی آمیز پمفلٹس کی تقسیم اور قتل

فائل

شمالی وزیر ستان کے مرکز میران شاہ اور نواحی علاقوں میں ایک مبینہ عسکریت پسند گروپ کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلٹس کی تقسیم کے بعد پولیس اہل کار سمیت دو افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔

مقامی قبائل کے مطابق میران شاہ میں ایک پولیس اہل کار کو جمعرات کی شام نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ جب کہ دتہ خیل کے گاؤں دیگان میں مولوی خان دراز نامی شخص کو قتل کر دیا گیا۔ یہ گاؤں ماضی قریب میں مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق کارروائی کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جب کہ لوگ ان واقعات کو دہشت گردی کی کارروائیاں قرار دے رہے ہیں۔

سرکاری طور پر ان دونوں واقعات کے بارے میں تاحال کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔

گزشتہ مہینے سابق قبائلی علاقوں کے روایتی خاصہ دار اور لیویز فورسز کو خیبر پختونخوا میں باضابطہ ضم کیے جانے کے بعد سیکورٹی اہل کار کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

دونوں واقعات کے بعد شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

مقامی قبائل کے مطابق دھمکی آمیز پمفلٹ عسکریت پسند حافظ گل بہادر کا گروپ اتحاد المجاہدین کی جانب سے تقسیم کیے گئے ہیں، جن میں حکومت کے حامی قبائلی عمائدین اور پولیس اہل کاروں کو باز رہنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

عسکریت پسند گروپ نے اپنے پمفلٹ میں پولیس اہل کاروں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ وردی پہننے اور اسلحہ لے کر گھومنے سے گریز کریں۔

دھمکی آمیز پمفلٹس میں غیر سرکاری اور سرکاری اداروں کے ذریعے خواتین میں راشن تقسیم کرنے، لڑکیوں کے اسکول جانے اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

پمفلٹ میں موٹر سائیکل پر خواتین کو بٹھانے، خوشی کی تقریبات میں خواجہ سراؤں کے ناچ گانے سمیت قبائلی عوام کو سیکورٹی اداروں میں بھرتی ہونے سے بھی روکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

شمالی وزیر ستان 2006 سے لے کر جون 2014 تک ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ جون 2014 میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے شروع ہونے کے بعد تمام عسکریت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

حکام کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران سو سے زائد افراد کو شمالی وزیرستان میں گھات لگا کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔ جن میں قبائلی رہنما، سرکاری عہدے داروں سمیت اعلیٰ سول اور سیکورٹی اداروں کے اہل کار بھی شامل ہیں۔ اس عرصے کے دوران تشد د کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔