افغان صدارتی انتخابات کے دوران حملوں میں 85 افراد ہلاک ہوئے: عالمی ادارہ

فائل

عالمی ادارے کی جانب سے کی جانے والی چھان بین سے پتا چلتا ہے کہ افغان صدارتی انتخابی عمل کے دوران ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تقریباً 460 سویلین زخمی ہوئے، جن میں 85 ہلاکتیں واقع ہوئیں۔

اقوام متحدہ کے اعانتی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فی صد حملوں میں طالبان ملوث تھے۔ اس پر تشدد کارروائی کا مقصد 28 ستمبر کو ہونے والے انتخابی عمل میں خلل ڈالنا تھا۔

سرکش گروپ نے اپنے بیانات میں افغان ووٹروں کو دھمکی دے رکھی تھی کہ وہ انتخابات سے دور رہیں، اور اپنے جنگجوؤں سے کہا تھا کہ وہ منتظمین اور انتخابی عمل کو محفوظ بنانے پر مامور سیکورٹی افواج کو نشانہ بنائیں۔

رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ پولنگ کے دن بھی 28 سویلین ہلاک ہوئے جبکہ 250 کے قریب زخمی ہوئے، جن میں سے ایک تہائی تعداد بچوں کی تھی۔

ادارے نے نہ صرف سویلین ہلاکتوں کے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں بلکہ اغوا کرنے، اور دھمکیاں، زیادتی اور ہراساں کیے جانے کے معاملات میں طالبان ملوث بتائے جاتے ہیں۔ ان واقعات سے پورا انتخابی عمل متاثر ہوا۔
یو این اے ایم اے کے سربراہ، تدامچی یاماموتو نے کہا ہے کہ ’’متعدد افغانوں نے دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر ووٹ ڈالے۔ میں اس دلیرانہ عمل کو سراہتا ہوں‘‘۔

انھوں نے ووٹروں، انتخابی کارکنان، انتخابی مہم، ریلیوں کے مقامات اور پولنگ مراکز پر طالبان کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو ناقابل قبول اور بنیادی بین الاقوامی انسانی حق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

یاماموتو نے کہا کہ ’’طالبان کے بیانات کے ساتھ ساتھ ان حملوں سے ایک دانستہ مہم کا انکشاف ہوتا ہے جس کا مقصد انتخابی عمل کو نقصان پہنچانا اور افغان شہریوں کو ان کے اہم سیاسی عمل میں آزادانہ انداز میں اور کسی ڈر خوف کے بغیر شریک ہونے کا حق چھیننا تھا‘‘۔

اٹھائیس اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج اکتوبر کے آخر تک آئیں گے، جبکہ حتمی نتائج اگلے ماہ تک سامنے آئیں گے۔ ابتدائی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں پڑنے والے ووٹ بہت ہی کم تھے، جس کی وجہ سیکورٹی کے معاملے پر تشویش بتائی جاتی ہے۔