سال 2023 کے دوران امریکی فوجی ساز و سامان کی غیر ملکی حکومتوں کو فروخت 238 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر رہی۔
یہ اعداد وشمار امریکی محکمۂ خارجہ نے جاری کیے ہیں۔ محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلحے کی فروخت اور منتقلی کو "امریکی خارجہ پالیسی کے اہم ٹولز کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ممکنہ طویل مدتی مضمرات ہیں۔"
گزشتہ سال امریکہ کی جانب سے غیر ملکی حکومتوں کو ہتھیاروں کی منظور شدہ فروخت میں پولینڈ کو 10 بلین ڈالر مالیت کے ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹمز، جرمنی کے لیے 2.9 بلین ڈالر مالیت کے فضا سے فضا میں مارکرنے والے ایڈوانسڈ میڈیم رینج میزائل اور یوکرین کے لیے نیشنل ایڈوانسڈ سطح کے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے سسٹم شامل ہیں۔
غیر ملکی حکومتوں کے لیے امریکی کمپنیوں سے ہتھیار خریدنے کے دو بڑے طریقے ہیں۔ ایک تو غیر ملکی حکومتیں کسی نجی کمپنی کے ساتھ براہِ راست تجارتی فروخت سے ہتھار خرید سکتی ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل کو ٹینکوں کے گولوں کی فروخت کے لیے امریکی حکومت کی کانگریس سے درخواستدوسرے طریقے کو فارن ملٹری سیلز کہتے ہیں جس کے تحت غیر ملکی حکومتیں امریکی ساز و سامان کے لیے اپنے دارالحکومتوں میں امریکی سفارت خانے میں محکمۂ دفاع کے ایک اہلکار سے رابطہ کرتی ہیں۔
البتہ دونوں صورتوں میں امریکی حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
امریکی کمپنیوں کی جانب سے براہِ راست فوجی فروخت مالی سال 2023 میں بڑھ کر 157.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو مالی سال 2022 میں 153.6 بلین ڈالر تھی۔
امریکی حکومت کے ذریعے دفاعی ساز و سامان کی فروخت سال 2022 میں 51.9 بلین ڈالر رہی تھی جو بڑھ کر 2023 میں 80.9 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔
SEE ALSO: امریکہ ، چین، بھارت ، پاکستان سمیت نو ایٹمی ملکوں کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ جاریتازہ ترین اعداد و شمار اسلحہ اور ملٹری ساز و سامان بنانے والی لاک ہیڈ مارٹن، جنرل ڈائنامکس اور نارتھروپ گرومن جیسی کمپنیوں کی مضبوط فروخت کی توقعات کو ظاہر کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے دوران دفاعی ساز و سامان فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں کے حصص بڑھنے کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن اور جنرل ڈائنامکس کو توقع ہے کہ لاکھوں توپ خانے کے راؤنڈز، سیکڑوں پیٹریاٹ میزائل انٹرسیپٹرز، اور بکتر بند گاڑیوں کے آرڈرز میں اضافہ ہوگا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔