رسائی کے لنکس

امریکہ ، چین، بھارت ، پاکستان سمیت نو ایٹمی ملکوں کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ جاری


امریکی پیٹریوٹ میزائل۔
فائل فوٹو
امریکی پیٹریوٹ میزائل۔ فائل فوٹو

سوئیڈن کے ایک تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا SIPRI نے پیر کے روز کہا ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے نو ممالک خاص طور پر چین نے دو ہزار بائیس میں اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانےکا سلسلہ جاری رکھا ، جبکہ کئی ملکوں نےجوہری ہتھیاروں کے نئے نظام نصب کئے۔تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں موجود ایسے ایٹمی ہتھیار، جو کسی ممکنہ استعمال کی غرض سے جوہری طاقتوں کے فوجی ذخیروں میں موجود ہیں، ان میں گزشتہ سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔

سٹاک ہوم،انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے ڈائریکٹر ڈین اسمتھ نے بتایا، کہ ہم تقریبا وہاں پہنچ چکے ہیں ، جہاں اب دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں میں مزید کمی نہیں ہو رہی ۔

سپری کی رپورٹ کے مطابق ،دنیا کی نو جوہری طاقتوں ،برطانیہ ،چین ،فرانس ، بھارت ، اسرائیل ،شمالی کوریا ،پاکستان ،روس ،اور امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوکر سن دوہزار تئیس میں ،بارہ ہزار پانچ سو بارہ ہو گئی ہے۔یہ تعداد سن دوہزار بائیس کے آغاز پر بارہ ہزار سات سو دس تھی ۔

پاکستان کا شاہین ٹو،زمین سے زمین پر مار کرنے والا میزائل فائل فوٹو
پاکستان کا شاہین ٹو،زمین سے زمین پر مار کرنے والا میزائل فائل فوٹو

اسمتھ نے کہا، ، کہ جوہری وار ہیڈز کی تعداد میں کمی کاجو سلسلہ 30 سال پہلے شروع ہوا تھا اب رک گیا ہے۔

ہندوستان، پاکستان اور شمالی کوریا نے ، اپنے ایٹمی ذخیرے میں اضافہ کیا اور روس کے ذخیرے کی تعداد 4,477 سے بڑھ کر 4,489 تک پہنچ گئی، جبکہ باقی جوہری طاقتوں نے اپنے ہتھیاروں کا حجم برقرار رکھا۔ زیادہ تر اضافہ چین نے کیا ہے جس نے اپنے ذخیرے کو 350 سے بڑھا کر 410 کر دیا ہے۔

روس اور امریکہ کے پاس اب بھی تمام ایٹمی ہتھیار وں کا تقریباً 90 فیصد موجود ہے۔ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے محققین نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کی سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔

مثال کے طور پر، امریکہ نے حملے کے بعد روس کے ساتھ اپنے ،دو طرفہ' اسٹریٹجک اسٹیبیلیٹی" مذاکرات، معطل کر دیے۔

فروری میں، ماسکو نے اعلان کیا کہ وہ سٹریٹیجک جارحانہ ہتھیاروں کی مزید کمی اور حد بندی کے 2010 کے معاہدے میں شرکت کو معطل کر رہا ہے۔

تحقیقی ادارے کا کہنا تھا کہ یہ آخری معاہدہ تھا جو روسی اور امریکی اسٹریٹجک نیوکلیئر فورسز کو محدود کرسکتا تھا۔

لیکن سمتھ نے یہ بھی کہا کہ ذخیرے میں اضافے کی وجہ یوکرین کی جنگ کو نہیں ٹہرایا جا سکتا ، کیونکہ نئے وار ہیڈز تیار کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور یہ کہ زیادہ تر اضافہ ان ممالک میں ہوتا ہے جو براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔

چین نے اپنی فوج کے ہر شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔اور اس کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد دو ہزار تئیس میں چار سو دس تک پہنچ گئی ہے۔اور مزید بڑھنے کی توقع ہے۔

اسمتھ نے کہا،" ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین ایک عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے اور یہ حقیقت ہے۔"

(خبر کا مواد اے ایف پی اور اے پی سے لیا گیا ہے)

'

XS
SM
MD
LG