امریکہ اور چین کے تعلقات میں باہمی اعتماد پر زور

صدراوباما اور ہوجن تاؤ (فائل فوٹو)

وزیرخارجہ کلنٹن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ جس حکمت عملی پر کاربند ہے اس کے تین پہلو ہیں۔ ہم ایشیا پیسیفک کے علاقے میں مضبوط علاقائی رابطے قائم کر رہے ہیں، ہم چین اور امریکہ کے درمیان اعتماد پیدا کر رہے ہیں اورجہاں کہیں ممکن ہو ہم اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دے رہے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات بڑے نازک موڑ پر ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان باقاعدہ تعلقات بحال ہوئے تقریباً تین عشرے گذر چکے ہیں اور چین کے صدر ہوجن تاؤ کے امریکہ کے سرکاری دورے میں چند روز باقی رہ گئے ہیں۔

وزیر خارجہ کلنٹن نے جمعہ کے روز محکمہ خارجہ میں اپنی تقریر میں دونوں ملکوں کے درمیان باہم اعتماد پر مبنی اور شفاف تعلقات پر زوردیا۔

وزیر خارجہ کلنٹن نے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہت اہم ہیں۔ یہ ایسے دو ملکوں کے درمیان تعلقات ہیں جنہیں دوست یا حریف کے خانوں میں بانٹنا ممکن نہیں ہے۔’’تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نئی طاقتیں اکثر لڑائی جھگڑوں اور غیر یقینی کے دور میں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بحرالکاہل کے دونوں طرف چین کے عروج اور امریکہ اور چین کے تعلقات کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ علاقے میں اور یہاں امریکہ میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چین کی ترقی خطرناک ہے اور اس سے سرد جنگ کے طرز کی کشمکش یا امریکہ کا زوال شروع ہو جائے گا۔ اور دوسری طرف چین میں کچھ لوگ پریشان ہیں کہ امریکہ چین کے عروج اور اقتصادی ترقی کو محدود کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس نظریے نے چین میں شدید نوعیت کی قوم پرستی کو جنم دیا ہے۔ ہم ان خیالات کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔

وزیرخارجہ کلنٹن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ جس حکمت عملی پر کاربند ہے اس کے تین پہلو ہیں۔ ہم ایشیا پیسیفک کے علاقے میں مضبوط علاقائی رابطے قائم کر رہے ہیں، ہم چین اور امریکہ کے درمیان اعتماد پیدا کر رہے ہیں اورجہاں کہیں ممکن ہو ہم اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دے رہے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے لیے موئثر طور سے تعاون کرنا اور عالمی ذمے داریاں پوری کرنا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں انسانی حقوق کے شعبے سمیت اپنے اختلافات پر فیصلہ کن اور مضبوط طریقے سے توجہ دینی ہوگی۔ ’’میں جانتی ہوں کہ چین میں صرف حکومت میں نہیں بلکہ عام آبادی میں بھی بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار ہے کہ ہم انسانی حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ وہ اسے اپنے اقتدارِ اعلیٰ میں مداخلت سمجھتے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے ایک بانی رکن کی حیثیت سے چین اپنے شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے کا پابند ہے ۔ یہ آفاقی حقوق ہیں جنہیں بین الاقوامی برادری تسلیم کرتی ہے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ جب چین بلاگرز کو سینسر کرے گا حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو قید کرے گا اور اپنے شہریوں کو مذہبی آزادی اور پُر امن احتجاج کے حق سے محروم کرے گا تو امریکہ اس پر دباؤ ڈالے گا۔

اقتصادی محاذ کے بارے میں وزیر خارجہ کلنٹن نے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان سالانہ تجارت کی مالیت 400 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ چین اپنی کرنسی کی قدر میں زیادہ تیزی سے اضافے کی اجازت دے، غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم کرے اور املاک ِ دانش کی حفاظت کرے۔

اُنھوں نے کہا کہ چین کی مجموعی قومی پیداوار گذشتہ تیس برسوں میں سو ارب ڈالر سے بڑھ کر پانچ ٹریلین ڈالر ہو گئی ہے۔ لیکن یہ اب بھی امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار کے صرف ایک تہائی کے برابر ہے۔

وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا کہ فوجی شعبے میں امریکہ چاہتا ہے کہ جیسے جیسے چین اپنی فوج کو جدید بنانے اور اسے وسعت دینے کے اقدامات کر رہا ہے وہ زیادہ شفاف رویہ اختیار کرے۔ انھوں نے ایک ایسی صورت حال سے نمٹنے میں جو امریکہ کے لیے پریشان کن ہے چین کے کردارکی اہمیت پر زور دیا۔ یہ مسئلہ ہے شمالی کوریا کے اشتعال انگیز اقدامات کا جن میں میزائل اور نیوکلیئر ٹیسٹ بھی شامل ہیں۔ ’’چین کی مدد سے گذشتہ سال ہم نے سلامتی کونسل میں زیادہ سخت پابندیوں کی منظوری دی۔ ان کوششوں سے ثابت ہوا کہ جب چین تعمیری کردار ادا کرتا ہے تو ہم ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جن کے نتیجے میں شمالی کوریا کودو ٹوک پیغام ملتا ہے‘‘۔

وزیر خارجہ کلنٹن نے کہا کہ چین کو دنیا کے اسٹیج پرزیادہ بھر پور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ دنیا کی نظریں چین پر لگی ہوئی ہیں اور اس بارے میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے کیوں کہ ہمارا خیال ہے کہ چین اکیسویں صدی میں ایک منفرد لیڈر بن سکتا ہے۔ ’’ اکیسویں صدی کی طاقت بننے کے ساتھ ساتھ جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں قبول کرنے سے چین کے لوگوں کو ترقی کے ایسے عظیم مواقع ملیں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مشترکہ مسائل کو حل کرنے کے بوجھ میں ہاتھ بٹایا جائے اور قواعد و ضوابط پر مبنی بین الاقوامی نظام کی پابندی کی جائے اور اس کی تشکیل میں مدد دی جائے‘‘۔

چین کے صدر منگل کے روز امریکہ پہنچنے والے ہیں۔