دلائی لامہ ’ہمدردانہ‘ خیالات رکھنے والے ’اچھے دوست‘ قرار

صدر اوباما نے کہا ہے کہ، ’میں اپنے ایک اچھے دوست، اعلیٰ حضرت، دلائی لامہ کا خصوصی خیر مقدم کرتا ہوں، جو ہمدردانہ جذبے کےمالک ایک نامور مثالی شخص ہیں، اور تمام انسانوں کی آزادی اور عزت نفسی کے لیے آواز بلند کرنے والے ایک قابلِ احترام شخص ہیں‘

چین کی جانب سے احتجاج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہ امریکہ تبت کے روحانی راہنما کے ساتھ کسی طور رابطے میں نہ آئے، امریکی صدر براک اوباما نے بحیثیت ’ایک ہمدرد انسان‘، دلائی لامہ کی تعریف کی ہے۔

مسٹر اوباما نے دلائی لامہ سے براہِ راست ملاقات نہیں کی، جو جمعرات کے دِن واشنگٹن میں منعقدہ سالانہ ’نیشنل پریئر بریک فاسٹ‘ میں شریک تھے۔ تاہم، وہ خاصی دور نشستوں پر تشریف رکھتے تھے، جب کہ اُنھوں نے ایک دوسرے سے دعا سلام کیا۔
تقریبا ً3600 مذہبی اور سیاسی راہنما اس سالانہ اجتماع میں مدعو تھے۔

مسٹر اوباما نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’میں اپنے ایک اچھے دوست، اعلیٰ حضرت، دلائی لامہ کا خصوصی خیرمقدم کرتا ہوں، جو ہمدردانہ جذبے کےمالک ایک نامور مثالی شخص ہیں، اور تمام انسانوں کی آزادی اور عزت نفسی کے لیے آواز بلند کرنے والے ایک قابلِ احترام شخص ہیں۔‘

دلائی لامہ کی جانب سے اصرار کے باوجود کہ وہ تبت کے لیے محض خودمختاری کے خواہاں ہیں، چین روحانی راہنما کو ایک خطرناک علیحدگی پسند خیال کرتے ہیں اور اُن سے ملاقات کرنے والے سربراہان کی باقاعدہ مذمت کرتے ہیں۔


چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، ہونگ لائی نے منگل کے روز کہا تھا کہ ’ہم اِس بات کے خلاف ہیں کہ تبت سے متعلق معاملات کی آڑ میں کوئی ملک چین کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرے۔ اور ہم اس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی غیر ملکی راہنما کسی طور پر دلائی لامہ سے ملاقات کرے‘۔

اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک، صدر اوباما تین بار دلائی لامہ سے مل چکے ہیںٕ۔ تاہم، دونوں کسی پبلک مقام پر نہیں ملے۔

اپنے خطاب میں، مسٹر اوباما نے اُن لوگوں کی مذمت کی ’جو اپنے ظالمانہ مقاصد کے لیے مذہب کو ہائی جیک کر لیتے ہیں‘۔

اُنھوں نے داعش کے شدت پسندوں کو ’موت کے سوداگر‘ قرار دیا، جنھوں نے شام اور عراق کے کئی حصوں پر قبضہ جما لیا ہے، جہاں وہ مغرب سے تعلق رکھنے والوں کے سر قلم کردیتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ، ’ہمارا کوئی بھی مذہب ہو، ہمیں امن کا داعی ہونا چاہیئے‘۔

مسٹر اوباما نے پوپ فرینسس کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اس سال کے اواخر میں ہونے والے اُن کے دورہٴامریکہ کے دوران اُن کا خیرمقدم کرنے کے منتظر ہیں۔


تبت کے متعدد لوگ حکومتِ چین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہبی اور ثقافتی ایذا رسانی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، جب کہ ملک کے اکثریتی ’ہان نسلی گروہ‘ رفتہ رفتہ تاریخی طور پر تبت کے علاقوں کے اندر داخل ہو رہے ہیں۔

چین اسے مسترد کرتے ہوئے، کہتا ہے کہ تبت کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ چین علاقے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی طرف بھی نشاندہی کرتا ہے، جس کے باعث ترقی ہوئی ہے اور تبت کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے۔

اپنے وطن میں جاری چین کی پالیسیوں پر احتجاج کے طور پر، فروری، 2009ء سے اب تک چین کے روایتی تبتی علاقے میں 126 سے زائد افراد خودسوزی کر چکے ہیں۔

دلائی لامہ اور ’سینٹرل تبتی اتھارٹی‘ بھارت میں قائم ہے، جو کُھل کر چین کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ تاہم، وہ خودکشی پر مبنی احتجاج کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔