بائیڈن کی نامزدگی، ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت واضح نہیں؟

  • قمر عباس جعفری

فائل

امریکہ میں صدارتی انتخاب سے قبل صدر ٹرمپ کی مخالفت ڈیموکریٹک پارٹی کے متوقع امیدوار جو بائیڈن کے لئے پارٹی کی حمایت کو مستحکم کر رہی ہے۔

لیکن، نامہ نگار برائین پیڈن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پارٹی کے ترقی پسندوں کی جانب سے، خاص طور پر کرونا وائرس کی وبا کے دوران، مہنگے امدادی پروگراموں کی حمایت کے لئے دباؤ اور حال ہی میں ایک خاتون کی جانب سے مسٹر باہیڈن پر جنسی ہراسانی کے الزامات اور ایک تیسری جماعت کے متوقع امیدوار کے میدان میں آنے کی صورت میں متحدہ حمایت کے لئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔

صدارت کے لئے جو بائیڈن کی حمایت کی توثیق کرتے ہوئے، سینیٹر برنی سینڈرز نے واضح الفاظ میں کہا کہ نومبر کے انتخاب میں صدر ٹرمپ کو شکست دینے کے لئے پارٹی کو متحد ہونا پڑے گا۔

لیکن خاتون رکن کانگریس، الگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز جیسے رہنما سینڈرز کی ورکنگ کلاس امریکیوں کے واسطے حکومت کی جانب سے ہیلتھ کئیر کی فراہمی اور دوسری مدد کی تجویز کی بائیڈن کی جانب سے مخالفت کے سوال پر اب بھی منقسم ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار اور بفیلو یونیورسٹی کے پروفیسر، فیضان الحق نے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں اصل گروپ کے علاوہ ایک پروگریسو گروپ بھی فعال ہے اور ان دونوں گروپوں کے درمیان کسی سمجھوتے کے لئے جو بائیڈن کو کچھ بائیں جانب جھکنا ہوگا؛ اور اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ ترقی پسند پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کسی خاتون کو نائب صدارت کے لئے منتخب کریں گے۔ اگر یہ خاتون امیدوار افریقی امریکن ہوں تو انہیں بڑی مدد مل سکتی ہے، کیونکہ افریقن امریکن زیادہ موثر اور زیادہ سرگرم ہیں۔ اور دو ہزار سولہ میں ہیلری کلنٹن کے انتخاب میں انہوں نے جو رول ادا کیا تھا اس سے زیادہ موثر رول اس الیکشن میں ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریپبلیکن پارٹی میں بظاہر کوئی گروپنگ نہیں ہے۔ لیکن، بقول ان کے، حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کی اصل قیادت قدامت پسندوں کے ہاتھ میں ہے اور پرانی ریپبلیکن پارٹی نئے انداز میں اسوقت میدان میں ہے۔

خیال رہے کہ بائیڈن کے خلاف سینیٹ کے عملے کی ایک سابق رکن، تارا ریڈ کی کی جانب سے 1990ء کے عشرے میں جنسی زیادتی کے الزامات کے بارے میں جس کی بائیڈن سختی سے تردید کرتے ہیں. ناقدین کا کہنا ہے کہ ریڈ کے بیان کی بے ربطی انکے کیس کو کمزور کرتی ہے اور بائیڈن کے ساتھی بھی انکے دفاع کے لئے میدان میں آگئے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک تیسرے صدارتی امیدوار جسٹن اماش، جو کہ ریپبلیکن رکن کانگریس ہیں اور لبرٹیرین پارٹی سے ٹکٹ کے حصول کے لئے کوشاں ہیں، کچھ اعتدال پسندوں کو جو بائیڈن سے اپنی جانب کھینچ سکتے ہیں جس سے swing states میں (یعنی ایسی ریاستوں میں جہاں کے ووٹر کسی پارٹی کے ساتھ وابستگی سے قطع نظر اپنی سوچ کے مطابق عین وقت پر فیصلہ کرتے ہیں) کہ انہیں کس کو ووٹ دینا۔ بائیڈن کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے، جن کی انہیں ٹرمپ کو شکست دینے کے لئے ضرورت ہے۔