روہنگیاؤں کے خلاف جنگی جرائم، میانمار کے رہنماؤں کا احتساب کیا جائے: امریکی ایوانِ نمائندگان

Bangladesh Rohingya

امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایک قانون سازی منظور کی ہے جس میں روہنگیا اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب پر میانمار کے سینئر قائدین کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

منگل کے روز ’برما ایکٹ‘ منظور کیا گیا، جسے زیر غور لانے کے لیے سینیٹ کو بھیجا جائے گا۔

ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس اینڈی لیون نے کہا کہ ’’صحافیوں، سرگرم کارکنان اور کوئی بھی فرد جو اس معاملے پر اپنی آواز بلند کرنے کا خواہاں ہے، اسے تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی رکن، این ویگنر اور میں نے برما کے سیاسی قیدیوں کی اعانت سے متعلق مسودہ قانون پیش کیا تھا۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’بل میں برما میں سیاسی اسیروں اور ضمیر کے قیدیوں کی رہائی پر زور دیا گیا ہے، اور اس میں امریکی محکمہ خارجہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس قانون سازی کی منظوری میں معاونت کی جائے‘‘۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے سینیٹ پر زور دیا تھا کہ اس قانون سازی کی منظوری دی جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل میں ایشیا پیسیفک ایڈووکیسی کے مینیجر، فرانسسکو بینکوسمے نے کہا ہے کہ ’’دو برس کا عرصہ گزر چکا ہے جب دنیا نے دیکھا کہ روہنگیا کی خواتین، مرد اور بچوں کے خلاف زیادتیاں کی گئیں۔ اس کے باوجود امریکی کانگریس اب تک اس معاملے پر آواز بلند کرنے اور متحدہ حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکہ کی جانب سے بر وقت اقدام نہ کرنے کے نتیجے میں دیگر ملکوں کے لیے ایک غلط مثال قائم ہوگی، جب کہ ایسے عمل سے میانمار کی فوج کو ملک بھر میں جرائم جاری رکھنے کی کھلی چھٹی مل جائے گی‘‘۔

گذشتہ ماہ حقائق جاننے پر مامور اقوام متحدہ کا ایک مشن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ میانمار کی فوج روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے خلاف قتل عام کا ارادہ رکھتی ہے، جب اس نے 2017ء میں لاکھوں روہنگیاؤں کو ملک سے باہر دھکیل دیا تھا۔

سال 2017ء کے اگست اور ستمبر کے مہینوں کے دوران، میانمار کے شمال میں واقع رخائین کی ریاست سے 700000 سے زیادہ روہنگیاؤں کو ملک بدر کیا گیا، جس سے قبل روہنگیا کے شدت پسندوں کی جانب سے ریاست کی مسلح افواج کے خلاف جوابی حملوں کے بعد فوج نے سخت کارروائی کی۔ تب سے انھوں نے ہمسایہ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے۔