باغیوں کےخلاف کارروائی میں پاکستان ضرورکامیاب ہوگا: قریشی

امریکی اور پاکستانی وزرائے خارجہ

محکمہٴ خارجہ کےاجلاس میں دوستی اورمفاہمت کےباوجود دونوں ممالک تمام ہی مسائل پرمتفق نہیں ہیں، اِس کےباوجود مذاکرات کے عمل کو کامیاب بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں: ہلری کلنٹن

بدھ کے روزپاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلیٰ امریکی عہدے داروں کو بتایا کہ طالبان اور دوسرے کٹر مذہبی عناصر کے خلاف جدوجہد میں اُن کی حکومت ضرور کامیاب ہوگی۔

باہمی مکالمے کے پہلے روز کے اجلاس کے بعد اُنھوں نے کہا کہ بات چیت کے نتیجے میں امریکہ، پاکستان کو اہم فوجی رسد کی زیادہ تیزی سے فراہمی پر رضامند ہوگیا۔

واشنگٹن میں وزارتی سطح پر مذاکرات جمعرات کو دوسرے روز بھی جاری رہیں گے۔

لیکن، پاکستانی وفد کے سربراہ، وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ وہ پہلے ہی اِس بات پر خوش اور مطمئن ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کےتعلقات، اب تعلق سے بڑھ کر شراکت داری تک پہنچ گئے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کے ساتھ اخباری کانفرنس میں قریشی نے کہا کہ وہ اور اُن کے وفد نے یہاں واشنگٹن میں پاکستان کی ابھرتی ہوئی جمہوریت کے استحکام کے اور طالبان کی اُس بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اس کی فوجی کارروائی کے لیے نئی تعریف و توصیف دیکھی جو کچھ ماہ پہلے تک لگتا تھا کہ اسلام آباد کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ واشنگٹن فوجی سازو سامان کی فراہمی کی پاکستان کی درخواست پر تیزی سے عمل کرنے پر رضامند ہوگیا ہے، جن میں سے بعض سامان کے لیے مہینوں اور برسوں پہلے درخواست کی گئی تھی۔

اور اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی جاری فوجی کارروائی نے جس کے دوران بہت سے باغی لیڈر ہلاک کیے گئے ہیں پاکستان کی صلاحیتوں کا اِن عہدے داروں کو بھی یقین دلادیا جو ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے تک پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ اُنھوں نے وادی سوات میں طالبان کو جگہ دے رکھی ہے۔

اُن کے الفاظ میں: ‘ہر شخص نے کہا: تم نے معاہدہٴ سوات پر دستخط کیے۔ ہتھیار ڈال دیے۔ اطاعت قبول کر لی۔ ہتھیار ڈالے۔ اور میں نے کہا رُکو۔ یہ حکمتِ عملی ہے۔ اور انتظار کریں۔ اس وقت تک انتظار کریں جب تک آپ نتائج نہ دیکھ لیں۔ اور پھر ہم نے نتائج کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے عوام نے، پاکستان کی مسلح افواج نے، اپنے عزم کا مظاہرہ کیا اور ہم جیتیں گے۔ اور ہم اس جدو جہد میں اِس لیے کامیاب ہوں گے کہ شکست ہمارے لیے کوئی متبادل نہیں ہے۔’

اِس اجلاس میں جس میں دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس کے سربراہان بھی شامل تھے، دوسرے معاہدوں کی بھی راہ ہموار ہوگئی جن میں پاکستان میں بجلی کی قلت میں کمی کے لیے مدد دینے کے واسطے تین پاکستانی تھرمل بجلی گھر بھی شامل ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اِسی نوعیت کا سول جوہری معاہدہ چاہتا ہے جیسا کہ بش حکومت نے بھارت کے ساتھ کیا تھا۔

وزیرِ خارجہ کلنٹن نے اس سلسلے میں صرف اتنا کہا کہ امریکہ ہراُس بات پر تبادلہ خیال کرے گا جو پاکستان چاہے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ محکمہٴ خارجہ کے اجلاس میں دوستی اور مفاہمت کے باوجود دونوں ممالک تمام ہی مسائل پر متفق نہیں ہیں ، اس کے باوجود مذاکرات کے عمل کو کامیاب بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔

‘کیا ہمارے درمیان عدم اتفاق ہے۔ یقیناً۔ ہم وقتاً فوقاً اپنے تمام دوستوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں، لیکن اسےپ باوجود ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی چیز ہمارے تعلق کو شراکت داری میں بدلنے سے روکے۔ جیسا کہ وزیر خارجہ نے کہا ایسی شراکت داری جو آزمائش پر پوری اترے۔’

اُنھوں نے کہا کہ سٹریٹجک ڈائلاگ 2006ء میں شروع ہوا تھا لیکن اب اس کی سطح بلندہو کروزارتی سطح پر آگئی ہے۔