امریکی اخبارات سے: ایران کے خلاف سخت اقتصادی تعزیرات

نتیجتاً، اب ایران میں افراطِ زر کی شرح کا تخمینہ 20 فی صد سے تجاوز کر گیا ہے اور ایرانی کرنسی کی قدر تیزی سے گرتی جار ہی ہے: اخباری رپورٹ

ایران کے خلاف اُس کے جوہری پروگرام کی وجہ سے عالمی برادری نے جو سنگین اقتصادی تعزیرات نافذ کی ہیں اُس پر’ ڈلیس مارننگ نیوز‘ اخبار ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اِس سے پہلے بین الاقوامی پابندیوں کا اِس قدر سنگین پھندہ کسی اور ملک کےگلے میں نہیں ڈالا گیا تھا،جس کے نتیجے میں اب ایران میں افراطِ زر کی شرح کا تخمینہ 20 فی صد سے تجاوز کر گیا ہے اور ایرانی کرنسی کی قدر تیزی کے ساتھ گرتی چلی جار ہی ہے ۔

اور، یہاں اسرائیل کی ہمنوا ایک لابی تنظیم نے صدر اوبامہ اور کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ یہ اقتصادی پابندیاں اور بھی سخت کر دی جایئں، تاکہ ایران کو مجبور کیا جائے کہ وُہ ا پنی بین الاقوامی ذمّہ داریوں کا احترام کرتے ہوئے اپنی جوہری تنصیبات کو بین الاقوامی معائنیے کے لئے کھول دے ۔

ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئےجب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واشگٹن کا دورہ کیا تھا اور دہمکی دی تھی کہ وہ ایران کے خلاف حفظ ما تقدّم کے طور پر حملہ کرنے والے ہیں جب کہ صدر براک اوبامہ نے اس معاملے پر اپنے اس موقّف کا اعادہ کیاکہ ان تعزیرات کو اثر انداز ہونے کے لئے وقت دیا جائے۔ چنانچہ، بنکوں کے مالی ترسیل کے عالمی ادارے ایران کے مرکزی بنک سمیت 30 بڑے بنکوں سے قطع تعلّق کرنے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں ایران کوتیل کی فروخت حاصل ہونے والی اربوں ڈالر کی آمدنی حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی محکمہء دفاع کے رواں ماہ کے تخمینے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اسرائیل حملہ کرے اورامریکہ بھی ایران کے خلاف براہ راست محاذآرائی پر مجبور ہو تو اس سے کس قدرخطرناک نتائج مرتّب ہوسکتے ہیں۔

محکمے کا کہنا ہے کہ اس قسم کے حملے سےایران کے جوہری پروگرام کوعارضی نقصان تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کے بعد ایران کی ہٹ دھرمی بڑھ جائے گی اور وُہ اپنی جوہری تنصیبات کا کبھی معائینہ نہیں کرنے دےگا اخبار کہتا ہے۔ لگ رہا ہے کہ ایران کے خلاف غیرمعمولی تعزیرات کارگر ثابت ہو رہی ہیں اور اُس نے اوباما انتظامیہ کے اس مشورے سے اتّفاق کیا ہےکہ ان تعزیرات کو پُوری طرح موثر ہونے کے لئے تحمّل سے کام لیا جاے اور کُچھ مزید وقت دیا جائے۔

توانائی کے مسئلے پر’ ہیوسٹن کرانیکل‘ کہتا ہے کہ قدرتی گیس توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بڑی صنعت ضرور ہے لیکن موٹر کار کےلئے شائد ابھی نہیں۔

کھُدائی کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ میں قدرتی گیس کے بیش بہا ء ذخائر کی قیمت دس سال میں سب سے کم ترین سطح تک گر گئی ہے، جب کہ پٹرول کے دام بڑھتے چلے جا رہے ہیں ، اور چار ڈالر فی گیلن تک پہنچ گئے ہیں۔

قدرتی گیس سے چلنےوالی گاڑیوں کے حامی ادارے کا اندزہ ہے کہ اگر کار چلانے والے پٹرول کی جگہ کمپریسڈ قدرتی گیس کی طرف آئیں تو وُہ ڈیڑھ ڈالر فی گیلن بچا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے، اُنہیں یا تو نئی گاڑی خریدنی پڑے گی یا پھر موجودہ گاڑی کو گیس کے استعمال کے لئے بدلنا پڑے گا۔

اس میں دو مشکلیں درپیش ہیں ، ایک تو ایسی گاڑیوں کی اور دوسرے قدرتی گیس کے سٹیشنوں کی کمی ہے، سارے ملک میں صرف ایک ہزار ایسے سٹیشن ہیں جہاں قُدرتی گیس دستیاب ہے ۔ اس وقت پورے ملک میں جو 22 کروڑ 30 لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں اُن میں سےصرف 90 ہزار ایسی ہیں جو قدرتی گیس پر چلتی ہیں۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ جن گاڑیوں میں دونوں پٹرول اور گیس کا استعمال ہوتا ہے، 2035 تک اُن کی مجموعی تعدادایک لاکھ اسی ہزار تک پہنچے گی، قدرتی گیس کی سب سے زیادہ وکالت کرنے والوں کو اعتراف ہے کہ بیشتر امریکیوں کو قدرتی گیس کو گاڑیوں میں استعمال کرنے کا قائیل کرنے میں بُہت وقت لگے گا۔

’ بہتر صدر منتخب کرنے کا بہتر طریقہ ‘ کے عنوان سے’ کینسس سٹار‘ میں اِروِن ہاکا ڈے رقمطراز ہیں کہ امریکی جمہُوری نظام کو کُچھ ہو رہا ہے۔یعنی عوام کےمنتخب کرنے کے حق کو کھوکھلا کیا جارہاہے اور یہ کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے کہ78 فی صد ووٹر اُس طریق کار سے غیر مطمئن ہیں، جو ان پر حکومت کرنے کے لئے رائج ہے ۔چنانچہ، جب ووٹر محسوس کریں کہ اُن کے انتخاب کا دائرہ کافی نہیں ہے تو اس کے لئے کُچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا حل وُہ اُمیدوار نہیں ہے ، جسےدو میں سے کسی ایک پارٹی نے چُنا ہو۔

چنانچہ، ’ امیری کنز اِلیکٹ ‘ نامی ایک ادارے نے ایک طریقہ وضع کیا ہے جس کے تحت انٹر نیٹ کی وساطت سےلوگ ایک ایسا صدارتی امید وار چن سکتے ہیں جو کسی پارٹی کا دست نگر نہ ہو ،اس آن لائن طریق کار سے تمام رجسٹر ڈ ووٹر نائب صدر کے عہدے کے لئےبھی امیدوار چن سکتے ہیں۔اس طرح تایرخ کی پہلی پرائمری میں نامزہونے والی ٹکٹ نومبر کے بیلٹ پر ہوگی،اور یہ امر اس درخواست کا مرہُون ِمنّت ہے جس پر 24 لاکھ سے زیادہ امریکیوں نے دستخط کئے ہیں۔مضموں نگار کا کہنا ہے کہ یہ دستخط ان لوگوں نے کئے ہیں جنہیں پارٹی بازی کی سیاسیات سے بالا تر ہو نے کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: