امریکی اخبارات سے: ملالہ پر بزدلانہ حملے کی پُر زور مذمت

ملالہ کے حق میں مظاہرہ

اس حملے سے ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان میں اب بھی یہ صلاحیت ہے کہ سوات کی وادی میں، جسے ایک فوجی کاروائی کے بعد وہاں سے طالبان سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، وہ اب بھی چوری چُھپے گھس کر وارداتیں کر سکتے ہیں: واشنگٹن پوسٹ
خواتین کے حقوق کے لئے لڑنے والی باہمّت چودہ سالہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوُسف زئی کو ہلاک کرنےکی جو مذمُوم کوشش طالبان انتہا پسندوں نے سوات میں کی ہے، اُس کی خبر امریکہ کے اخباروں کے پہلے صفحے پر ملالہ کی تصویر کے ساتھ چھپی ہے۔

خبر میں اس بُزدلانہ حملے کی پُر زور الفاظ میں مذمّت کے علاوہ اس حقیقت کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق اور خاص طور پر حقوق نسواں کے دُشمن ، تحریک طالبان پاکستان ابھی تک ملک کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے ، جس نے فخر کے ساتھ اس حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے۔


’واشنگن پوسٹ ‘ کہتا ہےکہ اس حملے سے ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان میں اب بھی یہ صلاحیت ہے کہ سوات کی وادی میں ، جسے ایک فوجی کاروائی کے بعد وہاں سے طالبان سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ، وہ اب بھی چوری چُھپے گھس کر وارداتیں کر سکتے ہیں۔دو ماہ قبل، مسلّح طالبان نے منگوارہ میں سوات ہوٹل ایسوی ایشن کے صدر کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور قسم کھائی تھی کہ وہ حکومت کی حمائت کرنے والے ہر شخص کو نشانہ بنائیں گے ۔

اخبار کہتا ہے کہ اب تک پاکستانی فوج کے ہزاروں افسر اور جوان طالبان کےخلاف جنگ میں شہید ہو چُکے ہیں۔ طالبان کے حملوں میں اب پہلے سے زیادہ شدّت آ گئی ہے اور جو پاکستانی فوجی اُن کے ہاتھ لگتا ہے وہ اس کا سر قلم کر دیتے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے


’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ ایک طرف پُورے پاکستان میں سکول کے بچوں نے ملالہ یوسف زئی کی صحت یابی کے لئے دعائیہ تقاریب منعقد کی ہیں اور سیاست دانوں نے اس بہیمانہ حرکت پر اپنی سخت بیزاری کا اظہار کیا ہے، تو دُوسری طرف مذہبی جماعتوں اور مسجد وں کے ملاٴوں نے زیادہ تر چُپ سادھ رکھی ہے۔

اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ملاّ اکثرو بیشتر خودکُش بمباری کی وارداتوں اور فرقہ وارانہ حملوں کی مذمّت کرنے سے گُریز کرتے ہیں، اس ڈر سے کہ کہیں اُن کے قدامت پسند پیرو کار ان سے ناراض نہ ہو جایئں اور کہیں وُہ طالبان کا اشتعال نہ مول لیں۔

ملالہ یوسف زئی کے سر سے ڈاکٹروں نے گولی نکال لی ہے اور اس کی حالت اب مستحکم بتائی جاتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ملالہ نے طالبان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لڑکیوں کےتعلیم پانے کے حق کی حمائت میں آواز بلند کرنے میں جس جرات کا مظاہرہ کیا تھا اُسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔

شدّد اور نااُمیدی سے مغلوب لوگوں کے لئے وُہ امّید کی ایک علامت ہے،جس نے تعلیم اور امن کے فروغ کے لئے کام کیا ۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ حکومت پاکستان نے اُسے امن کا قومی انعام اور دس لاکھ روپے د ئے ۔

پچھلے سال ملالہ نے بچوں کے لئے امن کا بین الاقوامی انعام ہالینڈ کی ایک تنظیم سےحاصل کیا ۔ اِس تنظیم نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی اساس پسندی کے خلاف تعلیمٕ نسواں کی حمائت میں ملالہ نے جس کمال کی جرّاتمندی کا مظاہرہ کیا بُہت کم لوگوں کو اس کی توفیق ہوئی ہے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ ملالہ یوسف کی ہمت کی داد دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس نے 11 سال کی عُمر میں تعلیم نسواں کے حق کاعلم بلند کیا اور جب 2009 ءمیں دستار پوش عسکریت پسند وں نے اس کے قصبے منگوارہ پر تسلّط حاصل کر لیا تو اس چھوٹی سی لڑکی نے تعلیم سے اپنے لگاؤ کا ببانگٕ دُہل اعلان کیااور کہا کہ وُہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس طرح وُہ طالبان تسلّط کے خلاف ایک نمایاں علامت بن گئی ۔ جیسا کہ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ٹیلیفون پر اس کی تصدیق کی اور ساتھ میں یہ دہمکی دی کہ اگر وُہ بچ گئی تو وُہ اس کو دوبارہ ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے ، تاکہ یہ دوسروں کے لئے ایک سبق بنے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران طالبان کی پاکستان کے بڑےشہروں میں حملے کرنے کی صلاحیت میں نمایاں کمی آئی ہے۔لیکن ، افغان سرحد سے ملحق دیہات میں ان جنگجؤوں نے ان پر تنقید کرنے والوں کا مُنہ بند کرنے کے لئے اور اپنی مرضی مسلّط کرنے کے لئے اپنی مہم میں تیزی پیدا کی ہے۔ لیکن، یہ حقیقت کہ ملالہ یوسف زئی کی آواز کو طالبان کے لئے ایک خطرہ سمجھا جانے لگا ہے اور یہ کہ وہ اس سکول کی بچی کو ہلاک کرنے کومناسب اور جائز سمجھتے ہیں ۔

ان جنگجؤوں کی سفاکانہ ذہنیت اور اس لڑکی کی جرائت کا ثبوت ہے اور جیسا کہ دستاویزی فلمیں بنانے والے ثمر من ا للہ کہتے ہیں ملالہ سوات کی الولعزم لڑکیوں کی ایک علامت بن گئی ہے جسے اندازہ ہے کہ اس کی آواز کی اہمیت ہے اور اسی لئے اُس نے بچوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ اس کے مقابلے میں بالغ لوگوں کے پاس اس جیسا ذہنٕ رسا نہیں تھا ۔

اخبار کا خیال ہے کہ ملالہ پر شدّت پسندوں کا یہ حملہ ملک کی طاقت ور فوج کے لئے ایک دھچکے سے کم نہیں، کیونکہ وُہ سوات میں اپنی فوجی کاروائی کو بغاوت کو کچلنے کی ایک کامیاب مثال کے طور پر پیش کرتی آئی ہے اور سوات پر ابھی تک فوج کا مکمّل تسلّط ہے۔ لیکن منگل کے روز یہ واقعہ اس وادی کے سب سے بڑے قصبے مٕنگوارہ میں پیش آیا، جو اخبار کے مطابق، اس بات کی علامت ہے کہ طالبان دوبارہ وہاں پہنچ رہے ہیں۔ ایک سرکاری ترجمان کامران خان کے نزدیک یہ اچھی علامت نہیں ہے۔

سوات کے طالبان ، جنوبی وزیرستان میں قائم ، وسیع تر تحریک طالبان پاکستان کا ایک جُزو ہیں ،جن کےلیڈر مولوی فضل اللہ کا سنہ 2007 میں ایک ایف ایم ریڈیو سٹیشن کی بدولت بڑا چرچا ہوا تھا۔

اخبار نے سوات کے پولیس سربراہ شاہ رسُول کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگوارہ جانے والی تمام سڑکوں میں روکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور یہ کہ تیس مُشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اِسی موضوع پر ، ’ وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ میں سوات پر طالبان کے دو سالہ اقتدار کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ اُس دور میں طالبان نے اس علاقے میں 200 سکول تباہ کر دئے تھے، ان میں سے بہت سے لڑکیوں کے سکول تھے ، اس دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کے دور کی طرح سوات میں لڑکیوں کا تعلیم کے لئے سکول جانا بند کردیں گے۔ اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی فوج نےسوات میں کاروائی کے دوران باغیوں کا خاتمہ کر دیا تھا، لیکن طالبان کی اعلیٰ قیادت وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک اور خبر کے مطابق امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پروٹیسٹنٹ عقیدے سے وابستہ لوگوں کی اکثریت نہیں رہی جب کہ ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جن کا کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ایک تحقیقی ادارے پیو فورم کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پروٹسٹنٹ فرقہ سے وابستہ آبادی کا تناسب گٕر کر 48 فیصد یا پچاس فیصد سے کم ہو گیا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ یہ کمی عرصے سے متوقّع تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی جج نہیں ہے جس کاپروٹسٹنٹ فرقے سے تعلّق ہو۔