مستقبل میں امریکیوں کو پنشن نہ ملنے کا خدشہ

مستقبل میں امریکیوں کو پنشن نہ ملنے کا خدشہ

امریکہ میں ریٹائرڈ افراد کی پینشن اور طبی امداد کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب امریکی قرضوں کا حجم بھی بڑھ رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور کاروباری کمپنیاں اپنے اخراجات کم کرنے کےطریقے ڈھونڈ رہی ہیں ۔ اس صورت حال کے پیش نظر نئی نسل کے امریکیوں کو خدشہ ہے کہ جب وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچیں گے تو ان کے پاس اپنے بڑھاپے کو آرام و سکون سے گزارنے کے وہ وسائل موجود نہیں ہونگے جو ان سے پچھلی نسل کے امریکیوں کو میسر تھے کیونکہ ماہرین کا کہناہے کہ بزرگوں کو دی جانے والی سوشل سیکیورٹی کے فنڈز آئندہ ڈھائی عشروں میں ختم ہوجائیں گے ۔

امریکہ میں پ65 سال یعنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے زیادہ تر افرادکو سوشل سیکیورٹی کے نام سے چلنے والے ایک سرکاری پروگرام سے مالی معاونت ملتی ہے ، لیکن اس پروگرام کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے امریکی کانگریس بزرگ افراد کے لئے دی جانے والی مراعات میں کمی ، ٹیکسوں اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی تجویز پر غور کر رہی ہے ۔

ایک ریٹائرڈ خاتون ہوان سینڈی کا کہناہے کہ مجھے اپنے بچوں اور ان کے بچوں کی فکر ہے ، مجھے لگتا ہے کہ ان کا مستقبل ہم سے بھی زیادہ غیر محفوظ ہے ۔

امریکہ کے سوشل سیکورٹی کے نظام کے بارے میں تفکرات میں حالیہ اضافے کی ایک وجہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والی اس نسل کے افراد کی تعداد میں اضافہ ہے ، جو دو سری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہوئے ۔

http://www.youtube.com/embed/yQAyeGjUD1w

ان امریکیوں نے ساری زندگی ہر طرح کے سرکاری ٹیکس ادا کئے تاکہ ان سے پچھلی نسل کے ریٹائرڈ افراد کو مالی مدد ملتی رہے، مگر امریکہ کی موجودہ آبادی میں سوشل سیکیورٹی ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس وقت امریکہ میں تین لوگ کام کرتے ہیں تو ایک شخص کو سوشل سیکیورٹی ملتی ہے ، لیکن 2030ء تک ایک شخص کی سوشل سیکیورٹی کی ادائیگی کے لئے صرف دو امریکی ٹیکس ادا کر رہے ہونگے ۔

ملازمین کو پینشن دینے کا نظام امریکی اداروں سے ختم ہو رہا ہے ۔امریکہ میں زیادہ تر ادارے اپنے ملازمین کو ایک متبادل پروگرام فور او ون کے کے ذریعے بچت کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ،۔ یہ پینشن کے پروگرام سے سستا پڑتا ہے ۔ کمپنیاں اپنے ملازمین کو ترغیب دیتی ہیں کہ وہ اس پروگرام میں ماہانہ جتنی رقم دیں گے ، اس کے برابررقم ادارہ ہر ماہ اپنی طرف سے اس میں شامل کرے گا اور ملازمین جمع شدہ رقم سے جہاں چاہیں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں ۔ لیکن اس نظام کی اپنی پیچیدگیاں ہیں ۔ ایک ریٹائرڈ ملازم فرینک جیووی کا کہناہے کہ میں نے لوگوں کے مشورے سے ایک کاروبار میں رقم لگائی تھی مگرحالات خراب ہو گئے اور میری رقم ڈوب گئی ، تو سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری زیادہ فائدہ مند نہیں ہوئی ۔

فرینک جیووی اکیلے نہیں ہیں ، امریکہ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں سرمایہ کاری اور منافع کی بنیادی باتوں سے واقفیت نہیں ۔جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی اینا ماریہ لوزارڈی نے ایسے دو مطالعاتی جائزوں میں حصہ لیا ۔ ان کا کہناہے کہ ملازمین کے کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری ڈال دینا درست نہیں ہے ، جبکہ انہیں ریٹائرمنٹ کے نکتہ نظر سے بچت اور سرمایہ کاری کے اصولوں سے واقف کروانےکا کوئی انتظام نہیں ہے ۔

ریاست میری لینڈ میں ریٹائرڈ افراد کے لئے ہونے والی ایک رائٹنگ کلاس میں شریک افراد کو اپنی بچت کی درست منصوبہ بندی کرنی کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔اس کلاس میں پڑھنے والے رے گرین کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے پیسے کو احتیاط سے خرچ کرنا بےحد اہم ہے کیونکہ طب کی ترقی سے اوسط عمر میں ہونےوالا اضافہ ریٹائرمنٹ کے اخراجات میں اضافہ کر رہا ہے ۔