’وٹے سٹے‘ کی شادی اور خودکشی کا رجحان

فائل

وٹے سٹے کی شادی میں۔۔۔دل ہو نہ ہو۔۔۔پسند ہو نا ہو۔۔۔۔عمروں میں فرق ہو تو ہو۔۔بس سب کچھ دونوں خاندانوں کے مفادات پر قربان کرنا ہوتا ہے
پاکستانی معاشرے کی کچھ رسمیں ایسی ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر انسانی دلوں کو پتھر سے تراشا جاتا تو بھی ان میں دراڑیں پڑ جاتیں۔ دقیانوسی، بے جوڑ اور فرسودہ یہ رسم و رواج۔۔۔ اب تک انگنت معصوم لوگوں کی جانیں لے چکے ہیں۔ لیکن، چاہ کر بھی کوئی انھیں جڑ سے ختم نہیں کر سکا۔

’وٹے سٹے‘ کی شادی کا رواج ہی دیکھ لیں جس میں ۔۔۔دل ہو نہ ہو۔۔۔پسند ہو۔۔ نا ہو۔۔۔۔عمروں میں فرق ہو تو ہو۔۔بس سب کچھ دونوں خاندانوں کے مفادات پر قربان کرنا ہوتا ہے۔

وٹے سٹے کو آسان زبان میں کہیں تو یہ دو دلہنوں کا ایک دوسرے کے خاندان میں تبادلے کا نام ہے۔ دو بہن بھائیوں کی شادی دوسرے خاندان کے دو بھائی بہن سے کر دینا۔

وٹے سٹے کی شادی کی بھینٹ چڑھنے والی ایسی ہی ایک مثال گھریلو ملازمہ شازیہ کی ہے۔ ’ایکسپریس ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 25 سالہ شازیہ 60 سالہ سارہ نامی خاتون کے گھر رہتی تھی۔ دو ہفتے قبل سارہ کسی کام سے باہر گئیں اور جب وہ پانچ گھنٹے بعد واپس گھر آئیں تو انہوں نے شازیہ کو پنکھے سے لٹکا پایا۔ سارہ کا کہنا ہے کہ ساری زندگی وہ یہ منظر بھلا نہیں سکتیں جو انہوں نے گھر میں داخل ہوکر دیکھا۔ شازیہ کی کلائیاں اور ایڑیاں نیلی پڑ چکی تھیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرچکی تھی۔

سارہ کے مطابق، انھیں اب تک یقین نہیں آ رہا کہ شازیہ مر چکی ہے۔ شازیہ کی موت کی واحد وجہ وٹے سٹے کی شادی تھی۔ شازیہ کی شادی اس کے گھر والوں نے بڑی عمر کے ایک آدمی سے طے کردی تھی جس کے بدلے میں اس آدمی کی بیٹی کی شادی شازیہ کے ذہنی طور پر معذور بھائی سے ہونا تھی۔ خودکشی سے چند روز پہلے شازیہ روتے ہوئے ایک ہی بات کہتی تھی کہ میرے گھر والوں نے مجھے پیسہ کمانے کی مشین بنا لیا ہے۔ اس شادی کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے میری موت۔

سارہ نے شازیہ کو تسلی دینے کی بہت کوشش کی کہ اس کے گھر والے اس کی زبردستی شادی نہیں کرسکتے۔ لیکن، حالات سے مایوس شازیہ نے موت کو گلے لگا لیا۔

شازیہ کی طرح ہرسال بہت سے لوگ جبری شادی کے نتیجے میں زندگی کی بازی ہار دیتے ہیں۔ ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)‘ کی میڈیا مانیٹرنگ کے مطابق سنہ 2012 میں 629 خواتین نے، مختلف وجوہات کی بنا پر، خود کشی کی جن میں ایک بڑی وجہ جبری شادی بھی تھی؛ جبکہ جمعرات کو ہی جاری ہونے والی اسی ادارے کی رپورٹ برائے سال 2013ء کے دوران 800سے زائد خواتین نے اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگایا۔

انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی اور نگراں حکومت میں ’ہیومن رائٹس اور ویمن ڈیولپمنٹ‘ کی سابق وزیر انیس ہارون کا کہنا ہے کہ شیلٹر ہومز اور این جی اوز اپنے طور پر کام کر رہی ہیں۔ لیکن، وہ آبادی کے صرف 10 فیصد حصے تک پہنچ پاتی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انیس ہارون کا کہنا ہے کہ لوگوں میں ان انسانی اور قانونی حقوق کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لئے میڈیا اور حکومت کو مل کر کام کرنا چاہئیے اور عورتوں کو زیادہ بااختیار بنانا چاہئیے۔

پسند کا حق
وٹے سٹے کی شادیاں زیادہ تر جبری شادیاں ہوتی ہیں، جن میں لڑکا اور لڑکی سے اس کی پسند معلوم کئے بغیر ہی شادی طے کر دی جاتی ہے۔جبری شادی کے بہت سے کیسز منظر عام پر آتے ہی نہیں۔ ’ایچ آر سی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق، جنوری 2012میں ملک بھر میں جبری شادیوں کے 340 کیسز ریکارڈ کئے گئے، جبکہ والدین کی مرضی یا پنچائیت کے فیصلے پر کی گئی بچوں کی شادیوں کے کیسز رپورٹ نہیں ہو پاتے۔

وٹہ سٹہ کیوں؟
انیس ہارون کے بقول، ’اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین وٹے سٹے کی شادی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کی وجہ غربت، عدم تحفظ، شعور کی کمی اور روایات ہوتی ہیں۔‘

’عورت فاوٴنڈیشن‘ کی مہناز رحمٰن کے مطابق، کم عمر بچوں کی شادیوں کی زیادہ تر وجہ پیسوں کا لالچ ہوتی ہے۔حکومت کی جانب سے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن پر دستخط کے باوجود، اس طرح کی شادیوں کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہیں کئے جاتے اورنہ ہی کوئی بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کے لئے کوئی قوانین بنائے گئے ہیں۔

دوسری جانب، انیس ہارون کا کہنا ہے کہ صورتحال کچھ نہ کچھ تبدیل ہوئی ہے خصوصاًشہری علاقوں میں۔ دیہی علاقوں سے شہر آکر بسنے والے خاندانوں کی بیٹیاں جو خود کما رہی ہیں پہلے سے زیادہ پراعتماد ہیں اور اس طرح بے جوڑ پروپوزلز کو مسترد بھی کرد یتی ہیں جس کی وجہ معاشی خود مختاری ہے۔