شمالی کوریا کے ساتھ اس وقت مذاکرات نہیں ہوسکتے: وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس کے اہلکار کے موقف کے برعکس ریکس ٹلرسن نے واضح طور پر کہا تھا کہ شمالی کوریا جس وقت چاہے امریکہ اس سے بغیر کسی پیشگی شرط کے بات کرنے کو تیار ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے واضح کیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے اپنا رویہ بہتر کرنے تک اس کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکار کا یہ بیان وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کے بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی بھی وقت اور بغیر کسی پیشگی شرط کے بات چیت شروع کرنے پر تیار ہے۔

وہائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بدھ کی شب خبر رساں ادارے 'رائٹرز'سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کے حالیہ میزائل تجربات کے پیشِ نظر یہ واضح ہے کہ اس کے ساتھ مذاکرات کا یہ وقت مناسب نہیں۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ پوری ٹرمپ انتظامیہ کا یہ موقف ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ اس وقت تک کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوسکتی جب تک پیانگ یانگ حکومت اپنے رویے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتی۔

اہلکار نے کہا کہ سیکریٹری ٹلرسن خود یہ کہہ چکے ہیں کہ رویے میں بہتری کی ایک علامت مزید کسی جوہری یا میزائل تجربے کا نہ کرنا بھی ہے لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکار کے موقف کے برعکس ریکس ٹلرسن نے واضح طور پر کہا تھا کہ شمالی کوریا جس وقت چاہے امریکہ اس سے بغیر کسی پیشگی شرط کے بات کرنے کو تیار ہے۔

منگل کو واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھنک ٹینک 'اٹلانٹک کونسل' میں خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری ٹلرسن نے مذاکرات سے قبل میزائل یا جوہری تجربات روکنے کی شرط کا ذکر نہیں کیا تھا تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ نتیجہ خیز بات چیت کے لیے "خاموشی کے وقفے" کی ضرورت ہوگی۔

سیکریٹری ٹلرسن نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا نے مذاکراتی عمل کے دوران کوئی مزید میزائل تجربہ کیا تو بات چیت کو جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ بیان بظاہر ٹرمپ حکومت کی اس پالیسی کے برخلاف تھا جس کے تحت وہ شمالی کوریا سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے قبل پیانگ یانگ کی جانب سے تمام جوہری اور میزائل تجربات روکنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس حکام نے اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کردیا ہے کہ سیکریٹری ٹلرسن نے شمالی کوریا کو مذاکرات کی یہ پیشکش صدر ٹرمپ کی مرضی اور منظوری سے دی ہے۔

شمالی کوریا کے خلاف صدر ٹرمپ کا مؤقف اپنے وزیرِ خارجہ کی بہ نسبت انتہائی سخت رہا ہے اور وہ شمالی کوریا پر "آگ و خون کی بارش" برسانے جیسی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں۔

اس کے برعکس ریکس ٹلرسن شمالی کوریا پر نسبتاً نرم لہجے میں تنقید کرتے آئے ہیں اور وہ ماضی میں بھی کئی بار شمالی کوریا کے ساتھ تنازعات کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔

لیکن ٹلرسن کی جانب سے شمالی کوریا کے ساتھ کسی پیشگی شرط کے بغیر مذاکرات کی پیشکش ایک نئی بات ہے جو بظاہر ٹرمپ انتظامیہ کے ماضی کے موقف سے متصادم ہے۔

ماضی میں صدر ٹرمپ اور ریکس ٹلرسن کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہی ہیں جب کہ گزشتہ ماہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ صدر ٹرمپ وزیرِ خارجہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔