براس سے مجید بریگیڈ: پاکستان کی فوج بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے نشانے پر

فائل فوٹو

سال 2022 کے آغاز سے ہی پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسندتنظیموں کے حملوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کو خصوصی طور پر ہدف بنایا جا رہاہے۔ بلوچستان کے ضلع پنجگور اور نوشکی میں دہشت گردی کے تازہ ترین واقعے کے بعد حکام پڑوسی ملک بھارت، افغانستان اور ایران کی جانب انگلیاں اٹھا رہے ہیں جب کہ مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا اتحاد ان حملوں میں کارفرما ں ہے۔

تین فروری کو پنجگور اور نوشکی میں دہشت گردوں کے سیکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر حملے میں ایک فوجی افسر سمیت سات اہلکار ہلاک ہوئے تھے جب کہ فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے 13 حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔

بلوچستان میں فعال کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جس دھڑے نےحملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس کے سربراہ بشیر زیب ہیں۔اس دھڑے کے مطابق اس کی ذیلی تنظیم 'مجید بریگیڈ'نے یہ حملہ کیاہے۔البتہ پاکستانی حکام خصوصاً وفاقی وصوبائی وزرائے داخلہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو پڑوسی ممالک سے سپورٹ ملنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں جس میں افغانستان اوربھارت کے ساتھ ساتھ ایران کا نام بھی لیا جا رہاہے۔

وزیراعلٰی بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان اوربھارت سے سپورٹ مل رہی ہے اور ایران کی سرزمین سے بھی غیر ریاستی عناصر فائدہ اٹھارہے ہیں۔

ان کے بقول پاکستان نے ایران کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا ہے اور تہران کے حکام نے غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کی یقین دہائی کرائی ہے۔

SEE ALSO: تحریک طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں گھرا پاکستان کیا کرے؟

بھارت، ایران اور افغانستان میں طالبان کی حکومت نے دہشت گردوں کو بیرونی مدد ملنے کے پاکستان کے الزامات پر سرکاری طورپرکسی ردِعمل کا ا ظہار نہیں کیا۔ البتہ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغان طالبان کےمحکمۂ داخلہ کے میڈیا سیل کے رکن نے کہا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔

ان کے بقول بلوچ علیحدگی پسندوں کامسئلہ ہو یا ٹی ٹی پی، یہ پاکستان کا اندرونی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ نے سیکیورٹی الرٹ جاری کرتے ہوئے چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو مستعد رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

'بلوچستان میں حملے شورش کا نیا فیز ہے'

پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی کے اسباب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے سیکیورٹی امور کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کےافسران، بلوچستان کے سیاسی تجزیہ کاروں، بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے معاملات سے باخبر مقامی صحافیوں سے بات کی ہے۔

سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ محقق عبدالباسط کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے حملے دراصل صوبے میں گزشتہ 15 سال سے جاری شورش کا 'نیا فیز' ہے۔

ان کے بقول، "اسلام آباد کا طالبان حکومت پر افغانستان میں موجود بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کا دباؤ بڑھ رہاہے جس کی وجہ سے بلوچ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد افغان صوبے نمروز اور قندھار کو چھوڑ کر یا تو واپس بلوچستان آنا پڑا یا وہ ایران میں چھپ رہے ہیں۔ جو بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ سمجھتی جاتی ہے۔"

Your browser doesn’t support HTML5

'بلوچ علیحدگی پسندوں کے کیمپ ایران میں ہیں'

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبدالباسط نے کہاکہ افغانستان سےغیرملکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں سرگرم ریاست مخالف تنظیموں (ٹی ٹی پی، بلوچ علیحدگی پسند) نے خطے کی بدلتی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے یا تو انضمام کی طرف گئیں یا انہوں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہےـ۔

پا کستان کا دعویٰ رہا ہے کہ افغانستان میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ اس حوالے سے بھارت پر ان کی پشت پناہی کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن بھارت اس طرح کے الزامات کی ہمیشہ تردید کرتا ہے۔

بلوچستان کے شہر تربت کے ایک سیاسی رہنما کا کہناہے کہ پاکستان کے بلوچستان اورایران کےصوبہ سیستان وبلوچستان میں آباد بلوچوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں جن کی سرحد پارآمدورفت معمول کی بات ہے۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر نام نہ شائع کرنے کی شرط پر انہوں نےبتایاکہ کراچی کے علاقے لیاری کے جرائم پیشہ افراد ہوں یا علیحدگی پسند گروہ سے تعلق رکھنے والے بلوچ، ان کے لیے ایران کے سرحدی صوبے میں چھپنا مشکل نہیں۔

ان کے بقول، " ایران کےصوبہ سیستان وبلوچستان میں ایرانی حکومت کے خلاف فعال جیش العدل یا جنداللہ جیسی سنی بلوچ تنظیمیں بھی پاکستان کے بلوچستان میں پناہ لیتی رہی ہیں۔"

مکران ریجن میں حملوں میں اضافہ کیوں؟

محقق عبدالباسط کے خیال میں بلوچستان میں فعال عسکریت پسندوں کی قیادت یورپ میں مقیم قبائلی سرداروں
سے منتقل ہوکر غیرقبائلی اورمڈل کلاس مزاحمت کارووں کے ہاتھوں میں آنے سے بھی صوبے میں حملوں میں اضافہ ہواہے۔

عبدالباسط سمجھتے ہیں مکران ریجن کے علاقوں میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان گروہوں کے زیادہ تر عسکریت پسندوں کا تعلق انہیں علاقوں سے ہے۔ ان کے بقول قبائلی مزاحمت کار زیادہ تر بگٹی، مری اور مینگل قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسلم بلوچ کی افغانستان میں ہلاکت، کیا پاکستان کے الزمات کو تقویت ملتی ہے؟

اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز (پی آئی پی ایس ) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں ملک میں خیبرپختونخوا کے بعد بلوچستان دہشت گردی سے متاثرہ دوسرا صوبہ ہے جہاں دہشت گردی کی 81 کارروائیوں میں 136 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

دہشت گردوں کی مذکورہ کارروائیوں میں 71 حملے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کیے گئے جن کا نشانہ زیادہ تر سیکیورٹی اہلکار ہی رہے۔

پی آئی پی ایس کی سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سب سے زیادہ 19 حملے ضلع کیچ میں ہوئے جہاں ماضی میں بھی سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ کئی حملے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت سبی ، پنجگور اور بولان میں بھی کیے گئے۔

حملوں میں اضافے کی وجہ بلوچ تنظیموں کا اتحاد ؟

یورپ میں مقیم حربیارمری کی بلوچ لبریشن آرمی، براہمداغ بگٹی کی بلوچ ری پبلکن آرمی اورمہران مری کی یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی کالعدم عسکری تنظیموں سے بلوچستان میں فعال فیلڈ کمانڈروں نے اپنا تعلق ختم کرکے یا تو نئے دھڑے تشکیل دیے یا انضمام کی شکل میں نئی تنظیمیں قائم کی۔

بلوچستان میں فعال تنظیموں نے جولائی 2020 میں پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانےکے لیے 'براس' نامی اتحاد قائم کیا تھا جس میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔ بعد ازاں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی نے بھی 'براس' سے اتحاد کیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

لاہور کے لوہاری گیٹ میں دھماکہ، بلوچ عسکری تنظیم نے ذمہ داری قبول کر لی

اب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو حمایت حاصل ہے۔

اسلام آباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک سسینٹر فاراسٹرٹیجک اینڈ کنٹیمپرری ریسرچ سے وابستہ رہنے والےمحقق فہد نبیل کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں مختلف نظریات کی حامل ضرور ہیں مگر ریاستِ پاکستان کے خلاف کارروائیاں انہیں متحد کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے شیخ رشید کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی اوربلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے ایک دوسرے کی حمایت کے سبب پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

مجید بریگیڈ کا کردار

پنجگور اورنوشکی میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کرتے ہوئے بیان میں کہا تھا کہ ان کی 'مجید بریگیڈ' کے حملہ آوروں نے یہ کارروائی کی ہے جن کی تصاویربھی جاری کی گئی ہیں۔

مجید بریگیڈ بی ایل اے کے فیلڈ کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی۔ رسمی طورپر اس تنظیم کے قیام کا اعلان مارچ 2010 میں کیا گیا تھا لیکن اس کی پہلی سرگرمی 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ میں سامنے آئی تھی۔

مجید بریگیڈ نے سابق وفاقی وزیرنصیر مینگل کے صاحبزادے شفیق مینگل کے گھر دیسی ساختہ بم حملہ کیا تھا جس میں 13 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد یہ تنظیم تقریباً سات سال تک غیر فعال رہی۔

سن 2017 میں اسلم بلوچ کے یورپ میں رہائش پزیر تنظیم کے سربراہ حربیار مری سے اختلافات میں اضافہ ہوا تو انہوں نے مجید بریگیڈ کو دوبارہ فعال کرتے ہوئے اگست 2018 میں دالبندین میں ایک کارروائی جس میں ان کے صاحبزادے ریحان بلوچ نے حصہ لیا۔

SEE ALSO: پاکستان میں کون سے عسکریت پسند گروہ چینی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں؟

مجید بریگیڈ کی اس کارروائی میں چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں تین چینی انجینئرز اور پانچ دیگر زخمی ہوئے تھے۔

مجید بریگیڈ کا تیسرا حملہ 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر کیا گیا تھا۔ گوادر شہر میں مئی 2019 میں پی سی ہوٹل اورجون 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پرحملے کی ذمے داریاں بھی مجید بریگیڈ نے قبول کی تھیں۔

مجید بریگیڈ کا نام مجید لانگو نامی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) سے وابستہ نوجوان کے نام سے منسوب ہے جو اگست 1975 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پرکوئٹہ کے ایک جلسے میں دستی بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

امریکی تھینک ٹینک جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ میں سیکیورٹی امورکے ماہر فرحان زاہد لکھتے ہیں کہ 'مجید بریگیڈ' کے عسکریت پسند اپنی کارروائیوں میں جدید ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (IEDs)، اینٹی پرسنل اور اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں، دستی بم، آر پی جیز اور مختلف خودکار ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ BM-12 107MM، 109MM اقسام کے راکٹ شامل ہیں۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی خبریں شائع کرنے والی ویب سائٹس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مجید بریگیڈ کے ایک رہنما حمل ریحان بلوچ کا کہنا تھا کہ مجید بریگیڈ آپریشنل، لاجسٹک اور انٹیلی جنس یونٹ پرمشتمل ہے۔

ان کے بقول، آپریشنل یونٹ کے فدائین ٹارگٹ پر جاکر فدائی حملہ کرتےہیں، لاجسٹک یونٹ بریگیڈ کے سہولت کار، رسد پہنچانے، آمدورفت کے ذمہ دار ساتھیوں پرمشتمل ہوتاہے جب کہ انٹیلی جنس یونٹ بریگیڈ کے لیے ٹارگٹس کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرتاہے۔

حمل بلوچ کے مطابق بریگیڈ کا کمانڈر براہ راست بی ایل اے کے سربراہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔

کوئٹہ میں مقیم قانون نافذ کرنے والے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ 'مجید بریگیڈ' اپنے ہدف کا سیاسی، علامتی اور بین لاقوامی اہمیت کودیکھتے ہوئے تعین کرتی ہے۔

نام نہ شائع کرنے کی شرط پروائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سیکیورٹی افسر نے کہا کہ ایف سی ہیڈکوارٹر ہو یا چینی سفارت خانہ، کراچی اسٹاک ایکسچنج کی عمارت پر حملہ ہو تا گوادر کے پی سی ہوٹل پر کارروائی۔ بی ایل اے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی سطح پر اپنی دہشت کی تشہیر کرنا ہوتا ہے۔

ان کے بقول بی ایل اے کی جانب سے نوشکی اورپنجگور میں حملے بھی ایسےوقت میں کیے گئے جب پاکستان کے وزیرِِ اعظم عمران خان چین کے دورے پرجارہے تھے۔