رسائی کے لنکس

امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی قرضہ 300 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا 


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جی ڈی پی  کے مقابلے میں قرضے کی شرح ، جو  کسی بھی ملک  کے مقروض ہونے کا پیمانہ ہوتا ہے ، اس کے حساب سے امریکہ  دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں سے ایک ہے

امریکی محکمہ خزانہ نے اس ہفتے خبر دی ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کل قومی قرضہ جات300 کھرب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔یہ رقم امریکی سالانہ اقتصادی پیداوار ،جسے عام طور پر مجموعی قومی پیداوار( جی ڈی پی) کہا جاتا ہے ،کے تقریباً ایک سو تیس فیصدکے برابر ہے۔چونکا دینے والا یہ قرضہ ،امریکہ کو سب سے زیادہ مقروض ملکوں میں سے ایک بنا دیتا ہے۔

امریکی وفاقی قرضہ عشروں سےبہت زیادہ رہا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے،لیکن کرونا وائرس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وبا نے قومی خزانے پر بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اس وبا کے پھیلنے سےپہلےسن دوہزار انیس کے آخر میں قومی قرضہ جات،بائیس ٹریلین ڈالر سے زیادہ تھے ،ایک سال بعد یہ پانچ ٹریلین بڑھ کر ستائیس ٹریلین کے قریب ہو گئے۔اس کے بعد سے ملک پر دو ٹریلین ڈالر کا مزید قرض بڑھ گیا۔

تیس ٹریلین یعنی تین سو کھرب ڈالر قرضے کا یہ عدد اپنے طور پر کوئی خاص معنی نہیں رکھتا، لیکن شاید اس سے امریکہ کو درپیش قرضوں کے مسئلے کی طرف توجہ ضرور بڑھ جائے۔ بعض حلقوں کی نظر میں قومی قرض کی صورت حال سنگین ہو چکی ہے۔

جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضے کی شرح ، جو کسی بھی ملک کے مقروض ہونے کا پیمانہ ہوتا ہے ، اس کے حساب سے امریکہ دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔

عالمی بینک کے اکتوبر کے اعدادو شمار کے مطابق،جی ڈی پی کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرض دار ملک جاپان ہے ،جس کا قرض مجموعی قومی پیداوار کے دوسو ستاون فیصدکے برابر ہے ۔دیگر ترقی یافتہ معیشتوں میں یونان کی جی ڈی پی کے مقابل قرضے کی شرح دوسو سات فیصد اور اٹلی کی ایک سو پچپن فیصد ہے۔

جی ڈی پی کے ایک سو تینتیس فیصد کی شرح کے ساتھ ، مجموعی طور پر امریکہ سب سے مقروض ملکوں میں بارہویں نمبر پر ہے،جبکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔

قومی قرضہ سالانہ بجٹ خسارے کا مجموعہ ہے ۔ا مریکہ میں پچھلے پچاس سالوں کے دوران صرف انیس سو اٹھانوے سے لے کر سن دوہزار ایک تک اخراجات کے مقابلے میں خزانے میں فاضل رقم تھی۔ اس میں پہلا سال ایک ریپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کا تھا ، جبکہ باقی تین سال ایک ڈیموکریٹ بل کلنٹن کی انتظامیہ کے تھے۔

حالیہ عشروں میں ، ڈیمو کریٹس اور ریپبلکنز دونوں نے اس سے قطع نظر کہ وائٹ ہاؤس میں کون بر سر اقتدار تھا، بڑے پیمانے پر، قرضےلیے جس سے وفاقی قرضہ مسلسل بڑھتا رہا۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بہت سے کانگریس کے ارکان میں مایوسی کا سبب ہے، جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھی ارکان کو مسئلے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔

ریاست نبراسکا سے ریپبلیکن سینیٹر بین سیس ایک بیان میں کہتے ہیں کہ، " تین سو کھرب کا قرض بیہودہ بات ہے ،لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے زیادہ تر سیاستدانوں کو اس کی پرواہ ہی نہیں ہے۔جب یہ سیاستدان نہیں ہوں گے تو کسی کو تو یہ قیمت چکانی ہو گی؛ ظاہر ہے خرابی کے ذمّہ داروں کو یہ ادائیگیاں نہیں کرنی پڑیں گی بلکہ یہ ہمارے بچےادا کریں گے۔"

XS
SM
MD
LG