یمن دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا نیا مرکز

یمن دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا نیا مرکز

ڈیٹرائٹ جانے والے ایک مسافر بردار امریکی ہوائی جہاز کو بم سے اڑانے کی حالیہ ناکام کوشش کے بعد واشنگٹن میں القاعدہ کے دہشت گرد گروپ کی یمن میں موجودگی کے بارے میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔

کرسمس کے روز امریکہ جانے والے ہوائی جہاز کو بم سے اڑانے کی ناکام کوشش کے بعد القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں توجہ کا نیا مرکز یمن ہے۔


اس واردات کے واحد مشتبہ ملزم عمر فاروق عبد المطلب نے مبینہ طور پر تربیت اور دھماکا خیز مادہ یمن میں حاصل کیا تھا۔ یمن کے نائب وزیر اعظم رشد العلیمی نے کہا ہے کہ یمن میں عبد المطلب کی ملاقات ایک انتہا پسند مسلمان عالم سے ہوئی تھی جو امریکہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالمطلب جو نائجیریا کا باشندہ ہے، یمن کےشبوا Shabwa صوبے میں القاعدہ کے بعض عناصر سے ملا تھا۔ خاص طور سے اس کی ملاقات انوار الواکی Anwar al-Awlaki سے ہوئی تھی‘‘۔
صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یمن کی امداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اوباما انتظامیہ میں جان بریننJohn Brennan انسداد ِ دہشت گردی کے چوٹی کے مشیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے سازو سامان اور تربیت فراہم کی ہے ۔ ہمارا ان کے ساتھ بڑا قریبی تعاون ہے ۔کچھ عرصے سے ہمیں اس صورت حال کا علم ہے لیکن ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہم القاعدہ کو تباہ کر کے ہی دم لیں گے چاہے وہ پاکستان میں ہو، افغانستان میں یا یمن میں‘‘۔
Heritage Foundatioin کے جیمز فلپس James Phillips کہتے ہیں کہ یمن میں القاعدہ کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ ان کے مطابق ’’دراصل یہ ان کا پرانا ٹھکانہ ہے لیکن اب اس کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے کیوں کہ القاعدہ کو بڑی حد تک سعودی عرب سے نکال دیا گیا ہے اور اس نے خود کو یمن میں نئے سرے سے منظم کر لیا ہے۔ پھریہ بھی ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کی بنیادی قیادت پر سخت دباو پڑ رہا ہے‘‘ ۔
فلپس کہتے ہیں کہ اگر القاعدہ نے اپنی کارروائیوں کا مرکز پاکستان سے مشرقی افریقہ منتقل کر دیا تو یمن اور بھی زیادہ اہم ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’چونکہ اس تنظیم کی قیادت عربوں کے پاس ہے، اس لیئے القاعدہ کے لیے عرب دنیا کے کونوں میں جا کرجیسے یمن کے پہاڑی علاقوں میں جہاں دراصل کسی حکومت کا کنٹرول نہیں مقامی آبادی میں شامل ہو جانا اور خود کو چھپا لینا آسان ہو گا‘‘۔
تا ہم نیو امریکن فاونڈیشن کے Peter Beinart اس خیال سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ القاعدہ نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں جس قسم کے تعلقات قائم کر لیئے ہیں، اس قسم کے تعلقات کہیں اور قائم کرنا مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’القاعدہ نے ایک طویل عرصے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تعلقات کا ایک جال بچھا دیا ہے ۔ القاعدہ کے بعض اہم شخصیتوں نے ان قبائل میں شادیاں کر لی ہیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کی آسانی سے نقل کی جا سکے‘‘۔

فلپس کہتے ہیں کہ القاعدہ پہلے ہی ان ملکوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے جو یمن کے سرحدوں کے پار واقع ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ضروری بات یہ ہے کہ امریکہ یمن کی حکومت، سعودی عرب کی حکومت، اومان کی حکومت، اور ان تمام حکومتوں کے ساتھ مکمل تعاون کرے جنھیں ان اسلامسٹ دہشت پسندوں سے خطرہ ہے جن کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد غیر مسلموں سے زیادہ ہے‘‘۔
Beinart کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یمن میں القاعدہ کی سرگرمیوں میں اضافے کا مقصد یہ ہو کہ امریکہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے وسائل پاکستان اور افغانستان کے علاقے سے نکال کر ، جہاںیہ دہشت گرد گروپ شدید دباو میں ہے، یمن لے جائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جہادی دہشت گرد بالکل یہی چاہتے ہیں کہ امریکہ کا رد عمل ضرورت سے زیادہ ہو کیوں کہ اس طرح امریکہ کے خلاف نفرت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے‘‘۔


واشنگٹن اور یمن دونوں ملکوں کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کو بہت محتاط رہنا چاہیئے کیوں کہ یمن بے تحاشا غربت، بد عنوانی اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں القاعدہ کے لیے کارکن بھرتی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔