رسائی کے لنکس

سنسی خیز مقدمے کا فیصلہ


A child cools off in a public pool in Soweto, South Africa. The weather service has classified the current heat wave being experienced by parts of South Africa as "extreme", and has warned that it is set to persist until Sunday.
A child cools off in a public pool in Soweto, South Africa. The weather service has classified the current heat wave being experienced by parts of South Africa as "extreme", and has warned that it is set to persist until Sunday.
برطانوی عدالت نے آخرِ کار نائلہ ممتاز قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔

برطانیہ کی اخباروں 'دی گارڈین 'اور' میٹرو' کی خبر کے مطابق فاضل جج نے مقتولہ کے شوہر 25سالہ توصیف احمد،بہنوئی 24سالہ حماد حسین کو تیرہ تیرہ سال جبکہ ساس سلمی اسلم اور سسر ضیاالحق کو پندرہ پندرہ سال کی سزا سنائی۔

بارہ ہفتےکی عدالتی کارروائی کے بعد چار ججوں اورآٹھ خواتین پر مشتعمل جیوری نےان چاروں افراد کومجرم قرار دیا۔

مقتولہ نائلہ ممتاز کو، جو اُس وقت حاملہ تھیں، 8 جولائی سنہ2009میں برمنگھم ہینڈز ورتھ میں ظالمانہ طریقے سے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔

دوران تحقیقات نائلہ کے شوہر توصیف نے موت کو خود کشی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقتولہ پر جن کا سایہ تھا، اور یہ کہ واقعے کے دن نائلہ نے دورے کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ بند کر کے اپنا گلا گھونٹ دیا تھا، مزید یہ کہ وہ، اس کا بھائی اور والدین نائلہ کو ایسا کرنے سے روک رہے تھے۔اِس دوران کمرے میں ایک عامل بھی موجود تھا جو نائلہ کو جن کے قبضے سے آزاد کرا نے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ توصیف نے نائلہ کے ہونے والے بچے کو اپنا بچہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس بچے کا تعلق بھی اسی جن سے ہے۔تاہم، اس نے نائلہ کے کردار پر بھی کوئی الزام نہیں لگایا ۔

فاضل جج نے ان بیانات کو مضحکہ خیز ،توہم پرستانہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ،ساتھ ہی اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ قتل عمد قتل نہیں تھا۔

اکیس سالہ نائلہ کی شادی والدین کی باہم رضا مندی سے ہوئی تھی۔سنہ2008میں وہ پاکستان سے برمنگھم اپنے سسرال آئی تھیں۔ نائلہ کے خاندان والوں کا کہنا ہے وہ ایک پیار کرنے والی خوبصورت اور با اعتماد لڑکی تھی ۔اُن کے لیے نا ئلہ کی موت کا سبب نا قابل یقین تھا۔

جسٹس کیتھ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تم چاروں نے ملکر نائلہ ممتاز کو قتل کیا جبکہ اس کے اندر ایک نئی زندگی سانس لے رہی تھی ،یہ ایک ایسی لاچار لڑکی کی موت کا کیس تھا جو پرائے دیس میں اپنوں سے دور تھی ،جس کے لیے یہ ملک اجنبی اور وہ انگریزی زبان سے بھی نا واقف تھی ، وہ کسی کو مدد کے لیےبھی نہیں بلا سکی۔

نائلہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی، جو انصاف ملنے پر جیوری کے شکر گزار ہیں ، جس نے انصاف کیا ۔

فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھنے والی بے بس پاکستانی عورت ہو یا برطانیہ میں قدامت پرستانہ سوچ کے حامل والدین کے ہاتھوں قتل کی جانے والی بیٹی شفیلہ یا پھر توہم پرستی کے زیر اثر سسرالیوں کا بہو نائلہ ممتاز کو قتل کرنا ان سب کی کڑیاں معاشرے میں پھیلی برائیوں اور لوگوں کے بدنما رویوں کو ظاہر کرتا ہے ،جب ایک عورت بے قصور ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی اپنے ہی پیاروں کے ہاتھوں گنوا بیٹھتی ہے ۔
XS
SM
MD
LG