رسائی کے لنکس

کرونا وائرس کیسے پھیلا؟ عالمی ادارے کی ٹیم کے ووہان میں ماہرین سے انٹرویو


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین میں تین ہفتوں سے موجود عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم نے چین کے شہر ووہان میں سائنس دانوں اور دیگر ماہرین کے تفصیلی انٹریو کیے ہیں۔ عالمی ادارے کی ٹیم کرونا وائرس کی ابتدا اور اس کے انسانوں میں منتقلی سمیت دیگر حقائق جاننے کے لیے چین پہنچی تھی۔

عالمی ادارہ صحت کے ترجمان نے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ماہرین کی ٹیم نے ووہان میں جانوروں پر تحقیق کے ادارے، صحت، حیاتیاتی اور وبائی امراض کے ماہرین سمیت دیگر حکام سے طویل ملاقاتیں کی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او میں ہنگامی حالات کے سربراہ مائیک ریان نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ حیرت انگیز انکشافات کا امکان ہے۔

اُنہوں نے کہا تھا کہ جب ووہان میں صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک ہوا تو ضروری نہیں کہ اسی وقت وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔

عالمی ادارہ صحت کی ٹیم میں جانوروں کی صحت اور وبائی امراض کے ماہرین شامل ہیں، جو اس بات کا تعین کریں گے کہ آخر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کرونا وائرس کا ماخذ کیا تھا اور یہ کیسے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔

کرونا وائرس کی ابتدا اور انسانوں میں منتقلی سے متعلق سوالات کے جوابات کے لیے دنیا بھر کے سائنس دان اور حکومتیں منتظر ہیں۔

کرونا وائرس ویکسینز کی آخری آزمائش
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

عالمی ادارہ صحت کے ترجمان کے مطابق چینی حکام نے ووہان میں جانوروں کے فروخت کی مارکیٹ ان اطلاعات پر بند کر دی تھی۔ جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ کرونا وائرس سے متاثرہ بیشتر افراد نے اس مارکیٹ کا دورہ کیا تھا۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ غالب امکان ہے کہ وائرس چمگادڑ سے کسی اور جانور اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔

خیال رہے کہ کرونا وائرس سے متعلق معلومات فراہم نہ کرنے اور مبینہ طور پر حقائق چھپانے پر امریکہ سمیت کئی ممالک نے چین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی عالمی ادارہ صحت پر چین کی طرف زیادہ جھکاؤ کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی امداد روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چین کے شہر ووہان میں گزشتہ سال دسمبر میں کرونا وائرس پھیلنے کا انکشاف ہوا تھا جس کے بعد اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کرونا وائرس کے باعث اب تک 1 کروڑ 83 لاکھ سے زائد افراد متاثر جب کہ 6 لاکھ 94 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG