رسائی کے لنکس

سیاسی صورتِ حال یا کرونا وبا، بھارتی کشمیر میں خود کشی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں خود کشیوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جمعرات کو مزید دو نوجوانوں نے دارالحکومت سری نگر میں خود کو پھانسی دے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، 1990 میں وادی میں مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد سے چھ ہزار سے زائد لوگوں نے خود کشی کی ہے۔

ماہرین تناؤ اور عرصۂ دراز سے بے امنی اور تشدد سمیت دیگر مسائل کو خود کشی کے واقعات میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں جب کہ کرونا وبا نے صورتِ حال مزید خراب کر دی ہے۔

حکام کے مطابق، کرونا وبا کے دوران خود کشی یا اس کی کوشش کے لگ بھگ 100 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

پینتالیس فی صد آبادی نفسیاتی پریشانی میں مبتلا

طبی امداد فراہم کرنے والی خود مختار بین الاقوامی تنظیم میڈیسن سائنس فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک تحقیق میں انکشاف کیا تھا کہ کشمیریوں کی 45 فی صد آبادی 'نفسیاتی پریشانی' میں مبتلا ہے۔

ایک اور بین الاقوامی امدادی ایجنسی 'ایکشن ایڈ' کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے دوران پتا چلا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی آبادی کا ایک اعشاریہ آٹھ فی صد حصہ خود کُشی پر مائل ہے۔

ممتاز ماہرِ نفسیات ڈاکٹر مشتاق مرغوب کا کہنا ہے گزشتہ ڈیڑھ برس سے کرونا وائرس نے معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے اور اس وبا کی دوسری لہر کے دوران انسانی جانوں کا بڑے پیمانے پر زیاں ہوا ہے۔

اُن کے بقول، ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں جس سے پوری آبادی میں کئی دہائیوں سے جاری تشدد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورتِ حال اور معاشی ابتری کے باعث پہلے سے موجود تناؤ اور تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

بھارتی کشمیر میں لڑکیوں کی بر وقت شادی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:20 0:00

'کووڈ کوئی معمولی بحران نہیں'

ڈاکٹر مشتاق مرغوب نے کہا کہ "کرونا وبا سے پیدا ہونے والا بحران کوئی معمولی بحران نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی تباہی ہے اور اس کے اثرات سے لوگوں میں تناؤ اور تشویش میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اُن کے بقول، اعصابی تناؤ اور بوجھ کے نتیجے میں لوگوں میں، خاص طور پر آبادی کے اُس حصے میں جو اس وبا سے براہِ راست متاثر ہوا ہے، انتہائی قدم اٹھانے کا رحجان بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب تو ہو گئی ہے، لیکن ان میں سے کئی ذہنی مسائل سے بھی دوچار ہو گئے ہیں۔

ماہرین کے بقول، کرونا وبا کی وجہ سے عائد پابندیاں اور لوگوں کا میل جول کم ہونے سے بھی صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی کشمیر کے لوگ گزشتہ تین دہائیوں سے ذہنی دباؤ، مایوسی، نا امیدی اور افسردگی کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق مرغوب کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کے باعث وہ آپس میں بات چیت، میل ملاقاتوں اور سماجی روابط میں دکھ سکھ بانٹ لیتے تھے، لیکن اب کرونا کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی محدود ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر مرغوب نے کہا کہ لوگ ذہنی سکون حاصل کرنے کی خاطر صوفی درگاہوں، خانقاہوں، مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں جا کر وقت گزار لیتے تھے، لیکن اب وہ بھی بند ہیں۔

منظم اور فعال امدادی نیٹ ورک قائم کرنے کی فوری ضرورت

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے وکلا کی تنظیم، جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے خود کشی کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ طبی اور نفسیاتی ماہرین کے نزدیک اس کی ایک بڑی وجہ لوگوں کے معاشی حالات میں تنزلی اور سماجی رابطوں پر عائد پابندیاں ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنطیم 'اتھہ رؤٹ' کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ اور اس جیسے درجنوں امدادی ادارے لوگوں کی پہلے ہی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن چوں کہ مسئلہ اتنا بڑا اور پریشانی اتنی وسیع ہے کہ ہر محلے، ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گاؤں میں منظم اور فعال امدادی نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ضلعی سطح پر کرونا وائرس کے متاثرین کو بہتر طبی امداد پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی مالی مدد کر رہی ہے جن کی آمدن کے ذرائع بند ہو گئے ہیں۔

بھارتی کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے حال ہی میں لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں شامل سیاحت کے لیے کروڑوں روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا۔

اسی قسم کا امدادی پیکیج انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی منظور کیا گیا جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں متاثرہ تاجر برادری اور عام لوگوں کو معاشی پریشانیوں سے باہر نکالنے کے لیے کئی طرح کی مراعات اور رعایتوں کا اعلان کرتی رہتی ہیں۔

اس کے ساتھ پبلک سیکٹر اور نجی بینکوں کو یہ واضح ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ قرضوں کی وصولی کو التوا میں رکھیں یا اس سلسلے میں نرمی کریں۔

علاوہ ازیں، نجی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو نوکریوں سے نہ نکالیں اور واجب الادا تنخواہیں فوری طور پر یکمشت ادا کریں یا انہیں قسطوں میں ادا کرنے کا سلسلہ بلا تاخیر شروع کر دیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG