رسائی کے لنکس

کابل:’سیکیورٹی کے حالات خراب نہیں لیکن لوگ سہمے ہوئے ہیں‘


کابل میں معمولاتِ زندگی بحال ہورہے ہیں لیکن بازاروں میں گہما گہمی نہیں۔
کابل میں معمولاتِ زندگی بحال ہورہے ہیں لیکن بازاروں میں گہما گہمی نہیں۔

افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے جلد نئی حکومت کے قیام کے علاوہ خواتین کو حقوق دینے اور میڈیا کو آزادی دینے کے اعلانات سمیت مختلف وعدے کیے ہیں۔ تاہم اب بھی کابل سمیت افغانستان بھر میں غیر یقینی کی فضا برقرار ہے۔

پہلی بار کیمروں کے سامنے آنے کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے عام معافی کا بھی اعلان کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان بدل چکے ہیں اور وہ اپنے سابق دورِ حکومت کی غلطیاں اس بار نہیں دہرانا چاہتے۔

لیکن ان اعلانات کے باجود طالبان کے طرزِ عمل اور مستقبل میں ان کی ممکنہ حکمتِ عملی سے متعلق کئی سوالات گردش میں ہیں۔

طالبان عالمی خدشات سے آگاہ ہیں

افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے افغانستان کی ’پژواک نیوز ایجنسی‘ کے مدیر مدثر علی شاہ کہتے ہیں کہ طالبان کو اس بات کا قوی احساس ہے کہ وہ عالمی برادری کے تعاون کے بغیر اپنی حکومت کو دوام نہیں دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے وہ قطعی طور پر نہیں چاہیں گے کہ ابتدا سے ایسے اقدامات کریں جس کے باعث وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو سکتے ہوں۔

مدثر علی شاہ کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے بارے میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور آزادیٔ اظہار سے متعلق عالمی برادری کے خدشات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مدثر علی شاہ نے مزید بتایا کہ میدانِ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد طالبان کی خواہش ہو گی کہ سیاسی طور پر بھی خود کو منوائیں۔ اس لیے طالبان اپنے گزشتہ دورِ حکومت کی کچھ پالیسیوں میں لچک پیدا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کے بارے میں طالبان کی حکمت عملی پہلے بہت سخت تھی۔ لیکن اس بار وہ نہ صرف خواتین کے حقوق، روزگار اور حتیٰ کہ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی کھل کر بات کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی وی پروگراموں میں بھی شریک ہو رہے ہیں۔

یاد رہے کہ طالبان ترجمان نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ خواتین کو اسلامی تعلیمات کے دائرۂ کار میں کام کرنے کی اجازت ہو گی۔

مدثر علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس بارے میں طالبان نے کوئی وضاحت جاری نہیں کی خواتین سے متعلق اسلامی دائرۂ کار سے ان کی کیا مراد ہے البتہ وہ اس پر بات ضرور کر رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔

حکومت سازی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ذبیح اللہ کی پریس کانفرنس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ موجودہ حالات میں طالبان کے پاس کوئی جامع لائحہ عمل نہیں ہے۔ کیوں کہ کابل کا کنٹرول سنبھالے چار دن گزرنے کے بعد بھی طالبان نے حکومتی انتظام و انصرام کے متعلق کسی بھی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ طالبان کو خود بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی تیزی سے کابل کا کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

طالبان کی حکومت کیسی ہو گی؟

اس وقت طالبان سابق صدر حامد کرزئی، گلبدین حکمت یار اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔

ملا برادر کی 20 سال بعد افغانستان آمد
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:19 0:00

منگل کو طالبان کی اعلیٰ قیادت دوحہ سے افغانستان پہنچی ہے جس کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ طالبان آئندہ چند دنوں میں اپنی کابینہ کا اعلان کر دیں گے۔

مدثر علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک بات واضح ہے اور طالبان کے بیانات سے بھی جس کے اشارے ملتے ہیں کہ مستقبل کی حکومت میں جمہوریت کی جھلک ضرور نظر آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کیوں کہ طالبان ملک کے سرکردہ رہنماؤں سے بات چیت کر رہے ہیں اور وہ چاہیں گے کہ قیامِ امن کی خاطر تمام دھڑوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ ساتھ ساتھ وہ پائیدار حکومت کے قیام کی کوشش کریں گے۔

ماہرِ افغان امور مدثر علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ افغانستان میں اس وقت غیر یقینی صورتِ حال ہے تاہم افغان عوام کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو افغان عوام سابقہ نظام سے بھی خوش نہیں تھے۔ کیوں کہ طالبان نے تمام افغانستان کو طاقت کے بل بوتے پر فتح نہیں کیا بلکہ آدھے سے زائد افغانستان بشمول کابل میں انہیں تسلیم کیا گیا۔

ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے سابق لیڈر بشمول ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ صدر اشرف غنی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

مدثر شاہ کے مطابق طالبان کی آمد کے بعد کسی بھی طرز کی زور زبردستی نہیں کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کے ان کے بڑے سے بڑے حریف کو بھی انہوں نے ابھی تک کچھ نہیں کہا ہے۔

ان کے مطابق طالبان کے جس حریف نے افغانستان میں ٹھیرنے کو ترجیح دی جیسا کہ اسماعیل خان وغیرہ انہیں رہنے دیا گیا اور اشرف غنی، حمد اللہ محب، عطا محمد نور وغیرہ جنہوں نے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی انہیں جانے دیا گیا۔

منگل کو پریس کانفرنس کے دوران طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے واضح طور پر عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کابل اور گرد و نواح میں بسنے والے افراد اب بھی خوف اور تذبذب کا شکار ہیں۔

کابل: سڑکوں پر ٹریفک کم، طالبان جگہ جگہ موجود
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:10 0:00

افغانستان میں مقیم صحافی بھی کھل کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ ابھی تک طالبان کی جانب سے میڈیا کے لیے کوئی واضح قوائد و ضوابط جاری نہیں کیے گئے۔

اس لیے صحافی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی کون سی بات طالبان کو اچھی لگے گی اور کون سی ناگوار گزر سکتی ہے۔

سیکیورٹی حالات خراب نہیں لیکن لوگ سہمے ہوئے ہیں

پینتالیس سالہ کاکڑ گزشتہ 20 برس سے دارالحکومت کابل میں کپڑوں کی دکان چلا رہے ہیں۔ سیکیورٹی خدشات کے باعث وہ اپنا پورا نام بتانے سے خوف زدہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی کے حالات خراب نہیں ہیں لیکن ہر کوئی سہما ہوا ہے اور لوگ افغانستان سے نکلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے ایئرپورٹ کی راہ لی تو وہاں بھیڑ دیکھ کر واپس آ گئے۔

یاد رہے کہ طالبان کے کابل میں داخلے کے ساتھ ہی سیکڑوں افراد نے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا رخ کیا اور تا حال وہیں پر موجود ہیں۔

کاکڑ کے مطابق اب بھی زیادہ تر لوگ گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بازار ابھی تک فعال نہیں ہوئے ہیں۔

انہوں نے بھی ابھی تک دکان نہیں کھولی، وہ دن میں کچھ وقت کے لیے حالات کا جائزہ لینے کے لیے گھر سے باہر نکلتے ضرور ہیں تاہم گھر والوں کی پریشانی کے باعث جلد ہی واپس آ جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG