رسائی کے لنکس

'افغانستان میں طالبان آ گئے لیکن کرکٹ کہیں نہیں جا رہی'


طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں کرکٹ کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں کرکٹ کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد اُن کے ممکنہ دورِ حکومت میں خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق کے علاوہ کرکٹ کے حلقوں میں ملک میں کھیل کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

کسی کا کہنا ہے کہ طالبان کو کرکٹ پسند نہیں اس لیے اسے ختم کر دیں گے۔ کوئی پیش گوئی کر رہا ہے کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی (ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ) میں بھی شرکت نہیں کر سکے گی۔

افغان ٹیم کے اسٹار کھلاڑیوں راشد خان اور محمد نبی کے کچھ ٹوئٹس کے بعد صورتِ حال مزید غیر یقینی ہو گئی ہے۔

انگلینڈ میں موجود دونوں کھلاڑی جو اس وقت 'دی ہنڈریڈ' کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت کر رہے ہیں ٹوئٹر پر گزشتہ ایک ہفتے سے کافی متحرک ہیں۔

راشد خان نے 10 اگست کو ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ان کا ملک جل رہا ہے اور پھر 15 اگست کو انہوں نے امن کا پیغام ٹوئٹ ک یا۔

دوسری جانب محمد نبی نے بھی 11 اگست کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے افغانستان کی صورتِ حال پر دنیا بھر کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔

کیا طالبان واقعی کرکٹ کو پسند نہیں کرتے؟

افغانستان میں طالبان کا قبضہ شاید ہی کسی اور کھیل سے محبت کرنے والوں کے لیے اتنا پریشان کن ہو جتنا کہ کرکٹ کے مداحوں کے لیے ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ افغان کرکٹ ٹیم کی حالیہ دنوں میں بہتر اور ان کے کھلاڑیوں کی دنیا بھر میں شان دار کارکردگی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور افغانستان کے سابق کوچ راشد لطیف کا کہنا ہے کہ طالبان کو کرکٹ سے کوئی مسئلہ نہیں، اس سے پہلے بھی وہ کرکٹ کے حق میں فتوٰی جاری کر چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کرکٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے کرکٹ کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔

راشد لطیف کہتے ہیں کہ "طالبان کو کرکٹ بری نہیں لگتی۔ انہوں نے ہمیشہ اس کے فروغ میں معاونت کی ہے۔ انہی کے دور میں کرکٹ دارالحکومت سے باہر بھی پروان چڑھی۔ جب میں افغان کرکٹ ٹیم کے ساتھ منسلک تھا تو میں وہ واحد شخص تھا جس نے نہ صرف کابل بلکہ جلال آباد اور دیگر شہروں میں جا کر کرکٹرز کی کوچنگ کی۔"

راشد لطیف کی کوچنگ میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے 2010 کے ایشین گیمز میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ افغان کرکٹ ٹیم نے یہاں تک پہنچنے میں بہت محنت کی ہے۔ لہذٰا وہ ضائع نہیں ہو گی۔

راشد لطیف کے بقول "کبھی بھی کھلاڑیوں کی محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ افغانستان میں حکومت بدلنے سے فرق تو پڑے گا لیکن زیادہ نہیں۔ نئے لوگ انتظامی امور سنبھالیں گے، فیلڈ پر وہی کرکٹ کھیلیں گے جو کھیل رہے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ اگر افغان کرکٹ ٹیم کے پلان میں تبدیلی ہوئی تو وہ پاکستان کی سیریز میں ہو گی جس کا ابھی تک کوئی واضح پلان نہیں ہے۔

خیال رہے کہ ستمبر میں سری لنکا میں پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز شیڈول ہے۔ تاہم طالبان کے کنٹرول کے بعد اب اس سیریز کا انعقاد بھی غیر یقینی ہے۔

راشد لطیف کے مطابق افغان کھلاڑی دنیا بھر کی کرکٹ لیگز میں کھیل کر تجربہ حاصل کر رہے ہیں جو ان کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی (ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ) میں بہت کام آئے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ "اس وقت افغان ٹیم کے پاس جہاں تیز رنز کرنے والے بلے باز ہیں وہیں خطرناک بولرز بھی ہیں جو کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ آنے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی (ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ) میں پاکستان تو کیا سب ہی ٹیموں کو ان سے ڈرنا چاہیے کیوں کہ وہ بھرپور تیاری کے ساتھ آئیں گے۔"

ایک اور سابق افغان کوچ اور نوے کی دہائی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کبیر خان بھی طالبان کے آنے سے قطعی پریشان نہیں۔

افغان کرکٹ ٹیم کو بین الاقوامی درجہ دلوانے میں جہاں کبیر خان کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے وہیں انہی کے دور میں افغان ٹیم نے پاکستان کا دورہ کر کے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی تھی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کبیر خان نے کہا کہ کرکٹ افغانستان میں طالبان ہی کے زمانے میں شروع ہوئی جب وہ افغان ٹیم کو قائد اعظم ٹرافی گریڈ ٹو کھیلنے پاکستان لائے تو وہ طالبان کا ہی دور تھا۔

راشد خان
راشد خان

اُن کے بقول "زیادہ لوگ یہ بات نہیں جانتے لیکن طالبان کو خوشی ہوتی تھی کہ افغان کرکٹرز اچھی کرکٹ بھی کھیلتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ انٹرنیشنل دوروں پر جب افغان ٹیم جاتی تھی تو وہاں بھی افغانستان کا مثبت امیج چھوڑ کر آتی تھی۔"

بقول کبیر خان نہ تو طالبان کے دور میں کبھی انہوں نے کرکٹ کی مخالفت کی اور نہ ہی ان کی طرف سے کبھی اسے ختم کرنے کے لیے کہا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ طالبان کرکٹ بورڈ میں اپنی مرضی کے لوگ لائیں گے، لیکن اُن کے آنے سے افغان کرکٹ ٹیم کے شیڈول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

کبیر خان کہتے ہیں کہ طالبان نے آتے ہی سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ یعنی دفاتر جانے والے دفاتر جائیں اور جنہوں نے کرکٹ کھیلنی ہے وہ کرکٹ کھیلیں۔

افغانستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی پر ایک نظر

افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے حالیہ دنوں میں اپنی عمدہ کارکردگی سے کئی لوگوں کو اپنا مداح بنایا۔ 2018 میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے والی ٹیم نے تین برس کے عرصے میں تین میچز میں کامیابی حاصل کی۔

اسی عرصے میں افغان کھلاڑیوں نے سینچری، ڈبل سینچری اور ایک میچ میں 10 وکٹوں کا کارنامہ بھی سرانجام دیا جو ایک نئی ٹیم کے لیے کسی سنگِ میل سے کم نہیں۔

افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو اپنے پہلے میچ میں بھارت کے ہاتھوں ایک اننگز اور 262 رنز سے شکست ہوئی۔ لیکن دوسرا میچ انہوں نے آئرلینڈ کے خلاف جیت کر ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی کامیابی حاصل کی۔

اپنے تیسرے ہی میچ میں بنگلہ دیش کو شکست دے کر افغان ٹیم نے دوسری فتح سمیٹی اور اپنے ٹیسٹ کرکٹ کے دوسرے ہی برس میں تین ٹیسٹ کھیل کر دو اپنے نام کیے۔

رواں برس ابو ظہبی میں بھی افغانستان نے زمبابوے کے خلاف سیریز ایک، ایک سے برابر کھیلی۔ پہلا میچ زمبابوے نے 10 وکٹ سے جیتا، دوسرے میں افغانستان کو چھ وکٹ سے کامیابی ملی۔

مجموعی طور پر افغانستان نے اب تک چھ ٹیسٹ کھیلے جس میں تین جیتے اور اتنے ہی ہارے۔ راشد خان پانچ ٹیسٹ میچز میں 34 وکٹوں کے ساتھ نمایاں ہیں جس میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ دو بار شامل ہے جب کہ بلے بازوں میں اصغر افغان 440 رنز کے ساتھ سب سے آگے ہیں۔

افغان کرکٹ ٹیم کی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کارکردگی

ون ڈےکرکٹ میں بھی ان کا ریکارڈ اتنا برا نہیں۔ 2009 سے اب تک 129 میچز میں سے افغان ٹیم نے اگر 63 میچز ہارے تو 62 میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔

ون ڈے کرکٹ میں افغان ٹیم آئر لینڈ کو 16، زمبابوے کو 15، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کو تین، تین مرتبہ سری لنکا کو ایک جب کہ ورلڈ کپ میں اسکاٹ لینڈ کو ایک میچ میں شکست دے چکی ہے۔

ون ڈے کرکٹ میں محمد نبی 2817 رنز اور راشد خان 140 وکٹوں کے ساتھ افغانستان کے سرِ فہرست کھلاڑی ہیں۔ راشد خان کا ایک اننگز میں 18 رنز دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا کسی بھی افغان کھلاڑی کی بہترین کارکردگی ہے۔

سن 2010 میں اپنا ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو کرنے والی افغان ٹیم نے اب تک 84 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے ہیں جس میں 58 جیتے اور 25 ہارے۔ کرکٹ کے سب سے چھوٹے فارمیٹ میں انہوں نے آئرلینڈ کو 14، زمبابوے کو 11، بنگلہ دیش کو چار، اور ویسٹ انڈیز کو تین میچز میں شکست دی۔

وکٹ کیپر بلے باز محمد شہزاد 1936 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں ٹی ٹوئنٹی بلے باز اور راشد خان 93 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بولر ہیں۔

XS
SM
MD
LG