رسائی کے لنکس

دعا زہرا کیس میں پولیس رپورٹ مسترد، ہائی کورٹ کی آئی جی سندھ سے چارج لینے کی ہدایت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس میں پولیس کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کامران فضل سے چارج واپس لینے کا حکم دیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے پیر کو جاری کردہ اپنے تحریری حکم میں کہا کہ دعا زہرا کی بازیابی کے لیے آئی جی سندھ نے غیر حقیقی رپورٹ پیش کی جسے عدالت مسترد کرتی ہے۔

عدالت نے آبزرویشن دی کہ آئی جی سندھ نے ایسا تاثر دیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کے حوالے کرے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اپنی رائے دے کہ کامران فضل اس عہدے کے لیے اہل ہیں یا نہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ ہمیں خبروں کی پروا نہیں۔اگر بچی افغانستان بھی گئی ہوئی ہوتی تو ہم آپ کو کہتے ہیں کہ اسے بازیاب کرائیں۔

دعا زہرا اور ظہیر کا آن لائن گیم سے تعلق بنا جو آگے چل کر محبت میں تبدیل ہوا اور پھر دعا اپنا گھر چھوڑ کر لاہور پہنچ گئی جہاں اس نے ظہیر سے اپنی مرضی سے نکاح کرلیا۔

اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس آغا فیصل نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو افسران کی فکر ہوگی ہمیں عوام کی فکر ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کے لاپتا ہونے کے کیس کی مزید سماعت جمعے تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

واضح رہے کہ دعا زہرا کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے گزشتہ ماہ مبینہ طور پر لاپتا ہو گئی تھیں۔ تاہم انہوں نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی عمر 18 سال ہے اور انہوں نے خود کراچی سے لاہور آ کر ظہیر نامی لڑکے سے کورٹ میرج کر لی ہے۔

دعا کے والد سید مہدی کاظمی نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کو ابھی 15 برس ہوئے ہیں اور دعا اپنی عمر سے متعلق غلط بیانی کر رہی ہے۔

آج عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے ہدایات نامے میں کہا گیا ہے کہ آئی جی سندھ کامران فضل اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دعا زہرا کے کیس میں پہلے بھی غلط توجیہات پیش کی گئیں جس میں کہا گیا کہ موبائل کے سگنلز خیبر پختونخوا اور پنجاب سے مل رہے ہیں لیکن بازیابی کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔

عدالت کے مطابق دوسری بار آئی جی کی جانب سے توجیہہ پیش کی گئی خیبر پختونخوا کے آئی جی کو بھی نوٹس جاری کیے جائیں جس پر کورٹ کا کہنا ہے کہ آئی جی اپنے فرائض سر انجام نہیں دے پا رہے۔ اس لیے ہم یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اپنی رائے دیں کہ کامران فضل اس عہدے کے اہل ہیں یا نہیں۔

قبل ازیں لاہور کی عدالت نے جب دعا زہرا کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی تو ایسا تاثر ملا کہ یہ ایک پسند کی شادی ہے اور اب یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کا کہنا تھا کہ ان کا کیس اس وقت اس لیے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کہ 90 فی صد کیسز کو والدین شرمندگی اور بدنامی کے ڈر سے آگے لے کر نہیں جاتے۔

اپنی بیٹی دعا زہرا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ مبینہ انسانی اسمگلنگ اور کسی گروہ کے سرغنہ کے ملوث ہونے کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ جب تک دعا کی واپسی نہیں ہوجاتی معاملات الجھے رہیں گے۔ ان کے بقول جب دعا زہرا بازیاب ہو جائے تو اسے شیلٹر ہوم منتقل کیا جائے تاکہ وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہو۔

دعا اور ظہیر کے نکاح نامہ کی حقیقت

مہدی کاظمی کے مطابق پولیس نے اپنی رپورٹ میں دعا کے نکاح نامے کو جعلی قرار دیا ہے۔ نکاح خواہ اور گواہان کو جب کراچی شرقی کی عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہاں نکاح خواہ نے بتایا کہ نکاح نامہ پر موجود انگوٹھے کا نشان اور دستخط ان کے ضرور ہیں لیکن یہ پہلے سے کئی خالی نکاح نامہ پر لگے ہوئے ایک وکیل خرم رائے کے پاس موجود ہیں۔ جو اس کیس سے قبل بھی غلط طریقے سے استعمال میں رہے ہیں۔ لاہور کا تفتیشی افسر جب نکاح نامہ کی تصدیق کے لیے گیا تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی ترجیح اس وقت دعا کی بازیابی ہے اس کے بعد وہ اس نکاح کے معاملے کو دیکھیں گے۔

اس کیس میں پنجاب یونیورسٹی کا کیا کردار ہے؟

مہدی کاظمی نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے دعا اور ظہیر کو پنجاب یونیورسٹی میں لوکیٹ کیا۔ پولیس نے تین دن تک یونیورسٹی میں جانے کی کوشش کی لیکن انتظامیہ نے پولیس کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جب کہ پولیس کے پاس گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے۔ تین دن کے بعد پولیس اندر جانے میں کامیاب ہوئی تو اصغر علی جو اس نکاح کا گواہ ہے اور معاملے کا اہم کردار بھی ہے وہ گرفتار ہوا

مہدی کاظمی کے مطابق ظہیر کی والدہ، چچا، بھائی پنجاب یونیورسٹی کے ملازم تھے اسی وجہ سے انہیں یونیورسٹی نے تحفظ دیا۔ اب جب پولیس نے انہیں آزاد کشمیر میں ٹریس کیا ہے تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی جہاں یہ رہائش پذیر تھے وہ گھر بھی کسی پنجاب یونیورسٹی کے ملازم کا تھا۔ یوں یہ کنکشن بنا ہوا ہے۔

مہدی کاظمی کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ پر الزامات یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر خرم شہزاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ظہیر کی والدہ یونیورسٹی کے ایک شعبے میں لیڈی اٹینڈنٹ جب کہ ظہیر کا بھائی کنٹرولر آف ایگزامینیشن کے آفس میں کلرک ہے۔ اس لحاظ سے پنجاب یونیورسٹی کا ان سے تعلق تو بنتا ہے ان کا یہاں آنا جانا رہا ہوگا لیکن یہ درست نہیں کہ انتظامیہ نے پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کا ایک ملازم اصغر جو اس نکاح میں گواہ تھا اس کو پولیس نے گرفتار بھی کیا۔

لاہور کی عدالت سے کیس خارج

کیس جیتنے کے حوالے سے خبروں کے جواب میں مہدی کاظمی کا کہنا تھا کہ یہ کیس لاہور کی مجسٹریٹ کی عدالت میں لگا ہوا تھا۔ انہوں نے جو کیس جیتنے کا دعویٰ کیا وہ یوں تھا کہ جب پہلی بار ان کی بیٹی دعا زہرا کو عدالت میں پیش کیا گیا جس میں اس نے بیان دیا کہ 18 اپریل کو ان کے والد چند رشتے داروں کے ساتھ لاہور آئے اور ان پر تشدد کیا اور اغوا کی کوشش کی۔

مہدی کاظمی کے مطابق یہ بیان جھوٹ پر مبنی تھا کیوں کہ وہ ان تاریخوں میں کراچی میں موجود تھے اور جب سے یہ واقعہ ہوا ہے وہ پولیس، رینجرز، انٹیلی جنس اداروں کے اہل کار ان گھر آتے جاتے رہے ہیں جو آن ریکارڈ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس بیان کے بعد جج نے انہیں حکم دیا تھا 18 مئی کو ثبوتوں کے ساتھ پیش ہوں اور ثابت کریں کہ والد رشتے داروں کے ساتھ آئے۔ تشدد کیا اور دباؤ ڈالا۔ چوں کہ یہ ایک جھوٹ پر مبنی کہانی تھی تو اسے یہ ثابت نہیں کر سکتے تھے۔ 18مئی کو ان کی لیگل ٹیم عدالت پہنچی لیکن ان کی جانب سے کوئی نہیں آیا انہوں نے بچی کی عمر کے ثبوت بھی عدالت میں پیش کیے۔ دعا زہرا کو تو سامنے نہیں آنے دیا گیا البتہ ان کی جانب سے وکیل بھی پیش نہیں ہوا۔ یوں جج نے عدم پیروی کی بنیاد پر یک طرفہ دلائل سننے کے بعد کیس خارج کر دیا۔

دعا زہرا کی بازیابی میں رکاوٹ

گزشتہ ماہ 24 مئی کی سماعت میں پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ دعا ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکی کیوں کہ پولیس کے مطابق 21 یا 22 مئی کو دعا کو خیبر پختونخوا منتقل کیا گیا ۔ پھر وہ وہاں سے آزاد کشمیر منتقل ہو گئے۔

عدالت نے 30 مئی کو وقت دیا کہ دعا زہرا کو بازیاب کرایا جائے لیکن آج بھی ایسا ممکن نہ ہو سکا جب کہ عدالت کی جانب سے اس کیس میں پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری کو نوٹسز جاری کیے تھے کہ بچی کی بازیابی کے لیے مدد کریں۔

XS
SM
MD
LG