رسائی کے لنکس

لندن میں تاریخ ساز ہفتہ، غیر ملکی رپورٹروں نے کیا دیکھا؟


ملکہ برطانیہ کے انتقال کی خبر سن کر لوگ بکنگھم پیلس کے باہر جمع ہیں (اے پی)
ملکہ برطانیہ کے انتقال کی خبر سن کر لوگ بکنگھم پیلس کے باہر جمع ہیں (اے پی)

سونیا لارنس گرین ایک تاریخی ہفتے میں لندن میں موجود تھیں۔اس ہفتے لندن نے ایک وزیراعظم کو سبکدوش ہوتے، ایک خاتون وزیراعظم کو اپنی حکومت تشکیل دیتے دیکھا اور پھر اسی ہفتے 70 سال تک برطانیہ کی ملکہ کا تاج سر پر سجانے والی الزبتھ دوئم کا انتقال بھی ہو گیا۔تاریخ ساز واقعات سے بھرپور اس ہفتے سونیا لارنس اور ان کے دوستوں نے جو لندن میں میل ملاقاتوں کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، کیا دیکھا؟ انہی کی زبانی جانتے ہیں۔

’’ میں ایک ہفتے کے لیے لندن گئی تھی اور ایک پب میں بیٹھی تھی کہ اچانک ہیڈ بارمین نے گھنٹی بجائی اور پکارا

’’ ملکہ گزر گئی ہیں۔۔۔ بادشاہ سلامت رہیں‘‘

پب میں موجود ہر شخص کی نگاہیں ٹیلی ویژن اسکرین پر مرکوز ہو گئیں جہاں ملکہ کے انتقال سے متعلق براہ راست کوریج چل رہی تھی۔ ماحول میں ایک دکھ تھا ، ایک احترام تھا جو کافی منٹوں تک قائم رہا۔

جب سے ملکہ ہسپتال میں داخل ہوئی تھیں، پورا ملک ملکہ کی صحت سے متعلق خبروں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اور اس چیز کو ’ کوئین ہیلتھ واچ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اب جبکہ ملکہ الزبتھ دوئم کا 96 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تو ان کی موت غیر متوقع نہیں تھی پھر بھی صدمہ پہنچانے والی خبر ضرور تھی۔

لندن میں گزرنے والے اس ایک ہفتے میں بہت کچھ ہوا۔ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم بورس جانسن نے الوداعی خطاب کیا، نئی وزیراعظم لز ٹرس نے نئی حکومت تشکیل دی اور ملکہ الزبتھ ایک تاریخی ساز دور گزار نے کے بعد انتقال کر گئیں۔

16 جون 2011 کی ملکہ الزبتھ دوئم کی ایک تصویر جس میں وہ آنجہانی پرنس فلپ کے ہمراہ ایک بگھی پر سوار، پریڈ کا معائنہ کر رہی ہیں۔ اے پی فائل
16 جون 2011 کی ملکہ الزبتھ دوئم کی ایک تصویر جس میں وہ آنجہانی پرنس فلپ کے ہمراہ ایک بگھی پر سوار، پریڈ کا معائنہ کر رہی ہیں۔ اے پی فائل

ہم غیر ملکی صحافی جو کبھی مل کر برطانیہ سے کام کر رہے تھے اور اب دنیا کے مختلف حصوں میں ہیں، لندن میں اکٹھے ہوئے تھے کہ اپنے دوستوں کو یاد کر سکیں۔ لیکن پب میں بیٹھے ہم ملکہ کے انتقال کی بریکنگ نیوز پر بات کر رہے تھے۔ ہم اب ڈیوٹی پر نہیں ہیں۔۔ لیکن پھر بھی ہمارے لیے یہ موضوع اہم ہے۔ ہم اپنی میز پر بیٹھے کام کر رہے تھے۔ یہ کام اگرچہ باضابطہ کسی ادارے کے لیے نہیں کر رہے تھے لیکن بطور ایک صحافی کے جب بھی کوئی خبر چل رہی ہوتی ہے، تو ہم لاشعوری طور پر اس کی مزید تفصیلات کھوج رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو ٹیکسٹ میسیج تو کسی کو فون کال کرتے ہیں، کوئی میم شیئر کر رہے ہوتے ہیں تو کسی سے پوچھ رہے ہوتے ہیں، کیا آپ نے یہ خبر دیکھی ہے؟ کیا آپ کو پتا ہے؟ آپ نے کچھ سنا؟

تمام فیکٹس حاصل کرنے کے بعد ہم اپنے ذاتی تاثرات دے رہے تھے اور بات کر رہے تھے۔ نینا نے اسی پب سے ایک وڈیو سوشل میڈیا پر شئر کی۔

جوش نے آگے جھک کر سب سے پوچھا، آپ نے یہ ٹویٹ دیکھی ہے جو ’ ٹوئٹ آف گاڈ ‘ نام کے ٹوئٹر ہینڈل سے آئی تھی۔ اس ٹوئٹ میں کہا گیا ’ میں صرف ملکہ کو ہی اتنے طویل وقت تک محفوظ رکھ سکتا ہوں‘۔

جین نے، جنہیں ملکہ الزبتھ دوئم نے براڈکاسٹ میں ان کی خدمات پر بکنگھم پیلس میں ایوارڈ سے نوازا تھا، پہلے کا اپنا ایک وٹس ایپ پیغام شیئرکیا جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ اس ہفتے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم جانسن اور نئی وزیراعظم ٹرس کی ملکہ سے ملاقاتیں ہو سکتا ہے کہ ’ بیٹی‘ کو غیر ضروری دباؤسے دوچار کر دیں۔"

وہ ملکہ کو Betty کہہ کر مخاطب کر رہی تھیں۔

میں نے اس موقع پر واپس ہوٹل جانے کا فیصلہ کیا تاکہ ملکہ کے انتقال کی کوریج دیکھ سکوں۔ لندن میں برستی بارش میں لوگ گلیوں میں ٹولیوں میں جمع تھے۔ کچھ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ پرچم سرنگوں کیے جا رہے تھے۔ آنے والی تقاریب کے حوالے سے پروگرام بن رہے تھے۔

پیدل چلنے والوں کی ایک بڑی تعداد پھول لیے بکنگھم پیلس کی طرف رواں دواں تھی۔ کچھ لوگ ملکہ کے انتقال پر دلی دکھ کا اظہار کر رہے تھے، اور کچھ ملکہ کی زندگی کے تاریخی لمحات کو یاد کر رہے تھے ۔ اس دوران بارش کے بعد بکنگھم پیلس پر دوہری قوس قزح نمودار ہوئی۔ اور نیک خواہشات کے ساتھ اس علامت کو کوئین الزبتھ کے لیے آخری الوداعیہ خیال کیا جا رہا تھا۔

میں نے لندن کی نمی سے بھرپور ہوا میں ایک لمبا سانس لیا اس خاتون کی زندگی کو اپنے تصور میں لائی جس نے برسوں ملک کی خدمت کی وہ بھی ایسے دور میں جب عظیم برطانیہ اور دنیا نے غیر معمولی تبدیلیوں کا سامنا کیا۔ ان لوگوں کو یاد کیا جو بھلے ملکہ سے محبت کرتے ہوں یا نفرت، وہ ان کے لیے کھڑی ہوئیں۔

ملکہ کے آگے کی منزل کیا ہے؟ یہ نہیں معلوم لیکن یہ معلوم ہے کہ وہ اس دنیا سے آزاد ہو چکی ہیں اور ایک مکمل لیگیسی چھوڑے جا رہی ہیں۔"

XS
SM
MD
LG