رسائی کے لنکس

یوکرین جنگ: ’ پوٹن نے ریزرو فوج طلب کرکے ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے‘


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین جنگ کے تقریباً سات ماہ مکمل ہونے پر تین لاکھ ریزور فوج کو طلب کرلیا ہے۔ صدر نے بدھ کو ملک کے اندر فوج کی نقل و حرکت کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب روس کو یوکرین میں کئی علاقوں میں پسپائی کا سامنا ہے۔

ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں صدر پوٹن نے کہا ہے کہ روس کے اندر فوج کی ’جزوی نقل و حرکت‘ میں تین لاکھ ریزرو فوجی اہل کاروں کو طلب کرلیا گیاہے۔

ان کا کہنا تھا کا طلب کی گئی ریزرو فوج میں عام شہری ہیں جو مسلح افواج کے لئےخدمات انجام دے چکے ہیں اور ضروری عسکری صلاحیت اور تجربہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغرب روس کو کمزور اور تباہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ روس اپنی اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے تمام راستے اختیار کرے گا۔

صدر پوٹن کی جانب سے یوکرین جنگ کے دوران ملک کے اندر فوج کی عددی قوت بڑھانے کا اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند رہنما مشرقی یوکرین میں ڈونباس ریجن کے لوہانسک اور دونیٹسک علاقوں میں رواں ہفتے روس میں شامل ہونے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرچکے ہیں۔

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اس اعلان کو روس کی جانب سے رائے شماری کا ڈرامہ رچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

روسی صدر نے بدھ کو ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے ریزرو فوج طلب کرنے کا اعلان کیا۔
روسی صدر نے بدھ کو ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے ریزرو فوج طلب کرنے کا اعلان کیا۔

فوج کی تعداد میں اضافہ کیوں؟

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق صدر پوٹن نے فوج کی تعداد بڑھانے کا اعلان کیا ہے جب کہ یوکرین کے روس کے زیرِ انتظام علاقوں میں ریفرنڈم ہونے والا ہے۔ یہ رائے شماری رواں برس فروری میں ہونے والی تھی لیکن جنگ کے باعث مؤخر ہوئی۔

یہ ریفرنڈم جن علاقوں میں ہو رہا ہے وہاں روسی بولنے والی آبادی بڑی تعداد میں ہے اور ان کی ممکنہ ہمدردیاں بھی روس کے ساتھ ہوں گی۔ لیکن اگر اس رائے شماری کے نتیجے میں یہ علاقے روس کا حصہ قرار دے بھی دیے جاتے ہیں تو یوکرین، امریکہ اور مغربی اتحادی ایسی کسی تبدیلی کو تسلیم نہیں کریں گے۔

وائٹ ہاؤس پہلے ہی روس کے ریفرنڈم کے منصوبوں کو مسترد کرچکا ہے۔ امریکہ کے صدر بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم یوکرین کی خود مختاری اور جغرافیائی وحدت کے اصول کے خلاف ہے جن علاقوں پر سوال اٹھایا جارہا ہے وہ یوکرین کا حصہ ہیں۔

جیک سلیوان کے مطابق بدھ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں صدر بائیڈن یوکرین میں روس کی شروع کی گئی جنگ کی شدید مذمت کریں گے۔علاوہ ازیں مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ جینس اسٹولٹنبرگ بھی ریفرنڈم کو شرمناک قرار دے چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کی صورت میں پوٹن کی شروع کی گئی جنگ میں مزید شدت آئے گی۔ بین الاقوامی برادری کو اس ریفرنڈم کی صورت میں ہونے والی عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت اور یوکرین کی حمایت کرنی چاہیے۔

روس کی پسپائی؟

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روس کے اعلان پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ محاذ جنگ کی صورتِ حال سے اس بات کی واضح نشان دہی ہوتی ہے کہ اس اقدام کا ہدف یوکرین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی شور شرابہ یا اعلان ہمارے مؤقف کو تبدیلی نہیں کر پائے گا اور اتحادیوں کی پوری حمایت ہمیں حاصل ہے۔

صدر پوٹن کی جانب سے فوج کی عددی قوت میں اضافے کے اس فیصلے کو یوکرین میں پسپائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق برطانیہ کے وزیرِ دفاع بین والس نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ فوج کی نقل و حرکت کا یہ اعلان پوٹن کا اعتراف ہے کہ ان کی جارحیت ناکام ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روس کے صدر اور وزیرِِ دفاع نے اپنے ہی ہزاروں شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلا ہے۔ وہ یہ جنگ ناقص تیاری اور قیادت کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق روس کے وزیرِ دفاع سرگئی شوئیگو نے بدھ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یوکرین میں اب تک روس کے 5937 فوجی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔

مغربی ممالک کے تخمینوں کے مطابق یوکرین جنگ میں روس کا جانی و مالی نقصان اس کے سرکاری اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔

روسی وزیر دفاع نے تیسری مرتبہ فوج کے جانی نقصان کے بارے میں اعداد و شمار سے آگاہ کیا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں روسی وزارتِ دفاع نے یوکرین میں 1351 فوجی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق صدر پوٹن کی جانب سے روس میں تین لاکھ ریزرو فوج طلب کرنا دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوکرین میں جنگ ان کے منصوبوں کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔

یوکرین میں صورتِ حال

گزشتہ ماہ امریکی وزارت دفاع کے حکام کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ یوکرین کی مزاحمت کی وجہ سے روس اپنے منصوبے کے مطابق پیش قدمی نہیں کر پا رہا ۔رواں ماہ جنگ کے 200 دن مکمل ہونے پر یوکرین نے مشرق اور مغربی علاقوں میں قابض ہونے والی روسی فوج کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔

اگست کے اختتام سے شروع ہونے والی جوابی کارروائی کا پہلا ہدف جنوب میں خیرسون کا علاقہ تھا جہاں جنگ کے ابتدائی دنوں میں روسی فوج قابض ہوگئی تھی۔

یوکرین کے صدر زیلنسکی کی 11 ستمبر کی تقریر کے مطابق رواں ماہ یوکرین دو ہزار کلومیٹر کا علاقہ روس سے واگزار کرا چکا ہے اور روسی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ رہی ہے۔

اس جنگ میں یوکرین کو بھی بھاری جانی مال نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ گزشتہ ماہ یوکرین کی فوج کے سربراہ نے بتایا تھا کہ جنگ میں ان کے نو ہزار فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ روس نے مارچ تک اپنے جانی نقصان کے بارے میں اعداد و شمار جاری نہیں کیے تھے۔

تاہم مغربی ممالک کے اندازوں کے مطابق روس کے 25 ہزار فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ زخمی، فرار اور گرفتار ہونے والے فوجیوں کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

اس کے علاوہ روس کے مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات بھی ہیں۔

گزشتہ ہفتے یوکرین کے صدر زیلنسکی نے دعویٰ کیا تھا کہ شمال مشرقی شہر ازیوم میں اجتماعی قبروں کے شواہد بھی ملے ہیں جہاں لاشوں کے علاوہ انسانی اعضا بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تاہم روس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اس میں خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’اے پی ‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG