رسائی کے لنکس

صحافی شیریں ابو عاقلہ کی ہلاکت کا معاملہ بین الاقوامی کرمنل کورٹ میں پیش کردیا گیا


فلسطینی مغربی کنارے کےشہر جینین میں اس مقام پر جہاں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو اْقلح کو 18 مئی کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اےپی فوٹو
فلسطینی مغربی کنارے کےشہر جینین میں اس مقام پر جہاں فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو اْقلح کو 18 مئی کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اےپی فوٹو

وکلاء اور ان کے گروپوں کے اتحاد نے کہا کہ انہوں نے الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کی گولیوں کے ذریعہ ہلاکت کے معاملے کو ان کے خاندان کی جانب سے جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں بھیج دیا ہے، اور استغاثے سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کریں کہ آیا اسرائیل نےدو دہائیوں سے مغربی کنارے کے علاقےمیں رپورٹنگ کرنے والی صحافی کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا تھا۔

فلسطینی حکام، ابو عاقلہ کےخاندان اور الجزیرہ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ اس نے 51 سالہ صحافی کو جان بوجھ کرہدف بنایا اور قتل کیا، جس نے اس وقت "پریس" کا لفظ لکھا ہوا ہیلمٹ اور حفاظتی جیکٹ پہنا ہوا تھا جب اسے گزشتہ مئی میں مقبوضہ مغربی علاقے میں گولی مار دی گئی تھی۔

ایک بین الاقوامی ریسرچ گروپ نے بھی اس فائرنگ کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، جس میں ایک اسرائیلی فوجی پر الزام لگایا گیا کہ گولیوں کے وقت اور رفتار سے پتہ چلتا ہے کہ ابو عاقلہ کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے ابو عاقلہ کی موت کا امکان ہوسکتا ہے، لیکن اس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ کسی فوجی نے انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا تھا۔

تنازعہ کا یہ نقطہ اسرائیل کو فائرنگ کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی فلسطینی کوششوں کا مرکز بن گیا۔ شیریں ابو عاقلہ کے وکلاء نے منگل کو کہا کہ انہوں نے ان کا کیس بین الاقوامی کرمنل کورٹ سےکی اس قانونی شکایت میں شامل کیا ہے جس میں اسرائیل پر مغربی کنارے اور غزہ میں پریس جیکٹ پہنے ہوئے فلسطینی صحافیوں کو جان بوجھ کر ہلاک اور زخمی کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

عدالت میں شکایت فائل کرنا اس کی ضمانت نہیں دیتا کہ استغاثہ تحقیقات شروع کر دے گا۔ اگر یہ کیس کھولا جاتا ہے، تو اس طرح کی تفتیش میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹرز نے 2015 میں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کی ابتدائی جانچ شروع کی تھی، لیکن اس کی باقاعدہ تحقیقات گزشتہ سال شروع کی گئی تھی۔

حالیہ مہینوں میں رات کے وقت اسرائیل کی جانب سے گرفتاری کےلئے مارے جانے والے چھاپوں میں تقریباً 90 فلسطینی مارے جا چکے ہیں. ان میں سے اکثر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عسکریت پسند تھے یا فلسطینی نوجوان جوچھاپوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے. یہ 2016 کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں سب سے ہلاکت خیز سال ہے۔

اس ماہ اسرائیل نے پہلی بار تسلیم کیا تھا کہ اس کا "غالب امکان" ہے کہ اس کے فوجیوں میں سے ایک نے شمالی مغربی کنارے میں ایک چھاپے کے دوران غلطی سے ابوعاقلہ کو ہلاک کر دیا ہو۔

مغربی کنارے میں امریکی اور فلسطینی صدور کی پریس کانفرنس سے قبل شیرین ابو عاقلہ کی تصویر ، صحافیوں کے درمیان کرسی پر۔ اے ایف پی فوٹو
مغربی کنارے میں امریکی اور فلسطینی صدور کی پریس کانفرنس سے قبل شیرین ابو عاقلہ کی تصویر ، صحافیوں کے درمیان کرسی پر۔ اے ایف پی فوٹو

شیریں کے بھائی، انتون ابو عاقلہ نے دی ہیگ سے صحافیوں کو بتایا، "ہمارے خاندان کو انصاف کے لیے ایک اور دن انتظار نہیں کرنا چاہیے۔"وہ"کسی دوسرے فلسطینی نژاد امریکی یا صحافی خاندان کو برداشت نہیں کرنا چاہیے جو ہم نے کیا ہے۔"

"ایسوسی ایٹڈ پریس" سمیت بین الاقوامی میڈیا تنظیموں کی تحقیقات کے ایک سلسلے سے پتہ چلا ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کو ممکنہ طور پر اسرائیلی فوجیوں نے ہلاک کرنے والی گولی چلائی تھی۔ امریکہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ ممکن ہے کہ کسی اسرائیلی فوجی نے انہیں غلطی سے ہلاک کیا ہو، تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچا۔

اسرائیل نے پہلے کہا تھا کہ ابوعاقلہ کو مارنے والی گولی کا صرف فرانزک تجزیہ ہی اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ یہ گولی اسرائیلی فوجی نے چلائی تھی یا کسی فلسطینی عسکریت پسند نے۔ تاہم، گزشتہ جولائی میں امریکی قیادت میں گولی کا تجزیہ غیر نتیجہ خیز رہا کیونکہ تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ گولی کو بری طرح نقصان پہنچا تھا۔

اس رپورٹ کے لئے مواد خبر رساں ادارےایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG