رسائی کے لنکس

امریکہ کا فلسطینی نژاد امریکی خاتون صحافی شیرین ابو عاقلہ کی ہلاکت کی تحقیقات کا مطالبہ


یروشلم میں پیدا ہونے والی 51 سالہ شیرین ابو عاقلہ ایک نامور فلسطینی صحافی تھیں جو 1997 سے الجزیرہ عربی سے وابستہ تھیں اور ان کے پاس امریکہ کی شہریت بھی تھی۔
یروشلم میں پیدا ہونے والی 51 سالہ شیرین ابو عاقلہ ایک نامور فلسطینی صحافی تھیں جو 1997 سے الجزیرہ عربی سے وابستہ تھیں اور ان کے پاس امریکہ کی شہریت بھی تھی۔

امریکہ نے فلسطینی نژاد امریکی خاتون صحافی شیرین ابو عاقلہ کی ہلاکت کی مکمل تحقیقات کرتے ہوئے ملزمان کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ مغربی کنارے میں خاتون صحافی کی ہلاکت اور ان کے پروڈیوسر علی سمودی کے زخمی ہونے کا سن کر دکھ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری ہمدردیاں شیرین کے خاندان، ان کے دوستوں اور ہمدردوں کے ساتھ ہیں اور ہم شیرین کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔"

نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ آزاد میڈیا پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور ہم میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کے فروغ کے لیے کام جاری رکھیں گے۔

ان کے بقول شیریں ابو عاقلہ کی المناک موت ایک بڑا نقصان اور آزاد میڈیا کی توہین ہے۔

یاد رہے کہ بدھ کو اسرائیلی فورسز کی مغربی کنارے کے علاقے جنین میں کارروائی کے دوران گولی لگنے سے شیرین عاقلہ ہلاک ہو گئی تھیں جب کہ ان کے ساتھی صحافی علی سمودی زخمی ہوئے تھے جن کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

فلسطینی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ شیرین اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوئیں تاہم اسرائیل نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ شیرین اور ان کے ساتھی فلسطینیوں کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کی زد میں آئے تھے۔

یروشلم میں پیدا ہونے والی 51 سالہ شیرین ابو عاقلہ ایک نامور فلسطینی صحافی تھیں جو 1997 سے 'الجزیرہ عربی' سے وابستہ تھیں اور ان کے پاس امریکہ کی شہریت بھی تھی۔

الجزیرہ چینل نے شیرین کی ہلاکت کے بعد اپنے چینل پر خبر نشر کرتے ہوئے عالمی برداری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس قتل کی مذمت کرے اور ، مبینہ طور پر، جان بوجھ کر ان کی خاتون ورکر کو قتل کرنے پر اسرائیلی فورسز کو جوابدہ ٹھہرائے۔

الجزیرہ نے ایک بیان میں کہا کہ "ہم مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا عہد کرتے ہیں، چاہے وہ اپنے جرم کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کریں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔"

دوسری جانب اسرائیل کی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنین کے علاقے میں کارروائی کے دوران انہیں شدید مزاحمت کا سامنا تھا جس پر جوابی فائرنگ کی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہے اور اس امکان کو دیکھا جا رہا ہے کہ فلسطینی مسلح افراد کی فائرنگ سے خاتون صحافی ہلاک ہوئی ہیں۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیفتالی بینٹ نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مسلح فلسطینی جنہوں نے وحشیانہ گولیاں چلائیں، وہ صحافی کی موت کا باعث بنے ہیں۔

امریکہ میں صحافت مشکل میں کیوں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:12 0:00

اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے خاتون صحافی کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقات اور مقتولہ کے پوسٹ مارٹم کی تجویز پیش کی ہے جسے فلسطینی اتھارٹی نے مسترد کر دیا ہے۔

ادھر فلسطینی اتھارٹی نے خاتون صحافی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیلی فورسز کی جانب سے 'خطرناک جرم' قرار دیا۔

'یہ مکمل جھوٹ ہے کہ ہم پر فائرنگ عسکریت پسندوں نے کی'

جنین میں بدھ کو فائرنگ سے زخمی ہونے والے صحافی علی سمودی نے خبر رساں 'ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا ہے کہ وہ سات صحافیوں پر مشتمل ایک گروپ کی صورت میں اسرائیلی فورسز کی کارروائی کو رپورٹ کر رہے تھے۔ ان کے بقول، "ہم نے جنگی حالات میں رپورٹنگ کے لیے اختیار کی جانے والی تمام احتیاطی تدابیر اختیار کر رکھی تھیں اور ہماری جیکٹس پر واضح طور پر رپورٹر لکھا تھا اور جب ہم اسرائیلی اہلکاروں کے قریب سے گزرے تو انہیں معلوم تھا کہ ہم صحافی ہیں اور ایک مقام پر موجود ہیں۔"

سمودی نے بتایا کہ ان پر پہلے فائرنگ ہوئی جس سے کوئی زخمی نہیں ہوا اور دوسری مرتبہ گولیاں چلیں جس سے وہ وہاں پھنس کر رہ گئے اور تیسری مرتبہ ایک گولی شیرین عاقلہ کو لگی جس سے وہ جانبر نہ ہو سکیں۔

سمودی کے مطابق جس وقت ان پر فائرنگ ہوئی اس وقت ان کے ارد گرد کوئی عسکریت پسند یا عام شہری نہیں تھا، وہاں صرف رپورٹرز اور آرمی کے اہلکار موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر فوج یہ کہتی ہے کہ انہیں عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا تو یہ بالکل جھوٹ ہے۔

آزادیٔ صحافت: کارٹونسٹ اپنے کام میں کتنے آزاد ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:10 0:00

شازا ہنشی بھی ان صحافیوں میں شامل ہیں جو اس وقت جنین میں اسرائیلی فورسز کی کارروائی کو رپورٹ کر رہی تھیں۔ انہوں نے 'الجزیرہ عربی' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب ان پر فائرنگ ہوئی تو انہوں نے ایک درخت کے پیچھے پناہ لینے کے لیے دوڑ لگائی اور وہ اس میں کامیاب رہیں لیکن شیرین زمین پر گر گئیں۔

ان کے بقول، "شیرین کے زمین پر گرنے کے باوجود فوجیوں نے فائرنگ کا سلسلہ نہ روکا اور جب جب میں نے شیرین کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا تو فوجی ہم پر فائرنگ کرتے رہے۔"

اسرائیلی کمانڈر بریگیڈیئر جنرل رین کوچیو نے آرمی ریڈیو کو بتایا کہ دو صحافی کیمروں سے مسلح تھے اور وہ فلسطینی مسلح افراد کے قریب تھے۔ ان کے بقول عسکریت پسند غیر پیشہ ور اور دہشت گرد ہیں اور وہ ہمارے فوجیوں پر فائرنگ کر رہے تھے اور ممکن ہے کہ انہوں نے صحافیوں کو نشانہ بنا دیا ہو۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG