رسائی کے لنکس

’ میں کبھی ایسا کہہ ہی نہیں سکتا‘ مارکس پوٹزل کی امر بالمعروف و نہی عن المنکر وزارت کے دعوے کی تردید


افغانستان میں اقوام متحدہ مشن کے نائب سربراہ مارکس پوٹزل ، جن سے متعلق افغانستان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سربراہ نے دعوی کیا تھا کہ جب ہم نے ان سے ملاقات میں فضائل کو فروغ دینے کی وضاحت کی تو انہوں نے کہا کہ نیکی کے فروغ کی یورپ میں بھی ضرورت ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ مشن کے نائب سربراہ مارکس پوٹزل ، جن سے متعلق افغانستان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سربراہ نے دعوی کیا تھا کہ جب ہم نے ان سے ملاقات میں فضائل کو فروغ دینے کی وضاحت کی تو انہوں نے کہا کہ نیکی کے فروغ کی یورپ میں بھی ضرورت ہے۔

واشنگٹن (ویب ڈیسک)۔ اگرچہ طالبان نے افغانستان میں میڈیا پر سنسر کی پابندیاں سخت کردی ہیں اور اور اسےکمزور کر دیا ہے، لیکن ان کی کمیونیکیشن کی غلطیاں اور گورننس کی خامیاں اب بھی سوشل پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر سامنے آ رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر چلانے والے،خالد حنفی کے ایک بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ جس میں حنفی نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں کہا تھا۔

’’کل ہماری افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے ساتھ میٹنگ ہوئی اور جب ہم نے ان سے فضائل کو فروغ دینے کی وضاحت کی تو انہوں نے کہا کہ نیکی کے فروغ کی یورپ میں بھی ضرورت ہے‘‘

اقوام متحدہ کے مشن نے ایک ٹویٹ میں کہا، "یوناما نے یقیناً ایسی کوئی بات نہیں کی ہے۔

’’میں ایسا کبھی نہیں کہ سکتا‘‘۔ یوناما کے نائب سربراہ مارکس پوٹزل نے الگ سے ٹویٹ کیا۔

پچھلے مہینے، طالبان کے سابق وزیر تعلیم، نور اللہ منیر نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے کچھ حصوں میں والدین اپنی نوعمر لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

حقیقت میں، طالبان نے لڑکیوں کے لیے ثانوی اسکولوں کو یہ کہتے ہوئے بند کر دیا کہ صرف مذہبی علماء ہی فیصلہ کر سکتے ہیں آیا انہیں دوبارہ کھولا جا سکتا ہے یا نہیں، اور اگر کھولا جانا سکتا ہے تو کب؟

طالبان عہدہ داروں کے اس طرح کے بیانات کوئی انہونی بات نہیں ہے۔

ایک افغان امریکی تجزیہ کار وحید فقیری نے وائس آف امریکہ کو بتایا:

’’طالبان کی غلط معلومات پھیلانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔‘‘

فقیری نے کہا کہ جولائی 2015 تک، طالبان نے اپنے سپریم لیڈر ملا محمد عمر کے نام پر، جن کی اپریل 2013 میں موت کو خفیہ رکھا گیا تھا، گمراہ کن عوامی بیانات جاری کیے ۔

طالبان نے دو سال تک ملا عمر کی موت کو چھپانے کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا حکمت عملی کے تقاضوں کے تحت کیا تھا، کیونکہ وہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج سے لڑ رہے تھے۔

نظر نہ آنے والے حکمران

ایک زمانے میں پھلنے پھولنے والے افغان میڈیا کو، طالبان کے دور میں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

80 فیصد تک خواتین افغان صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں اور باقی کو سنگین پابندیوں کا سامنا ہے، جیسے کہ ٹیلی ویژن پر پروگرام پیش کرتے وقت چہرے پر نقاب ڈالنی ضروری ہے۔

طالبان کے موجودہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ اخوند زادہ کے مقرر کردہ وزیر اعلیٰ اور ان کے نائبین، اگرچہ سرکاری طور پر جاری کی گئی ویڈیوز میں نظر آتے ہیں، تاہم اپنی گور ننس کے بارے میں سوالات کے جواب دینے کے لیے کبھی بھی میڈیا کے کسی انٹرویو میں نظر نہیں آئے۔

ٹی وی اینکر خاطرہ احمدی طلوع نیوز میں خبریں پڑھتے ہوئے۔ اے پی فوٹو
ٹی وی اینکر خاطرہ احمدی طلوع نیوز میں خبریں پڑھتے ہوئے۔ اے پی فوٹو

ایک افغان صحافی نے کہا:

’’ طالبان کی حکومت میں کمیونیکیشن یک طرفہ ہے۔ وہ صرف وہی کہتے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے سوالوں کا جواب کبھی نہیں دیتے‘‘

اگرچہ طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی قیادت سابق افغان جمہوریہ کے مقابلے میں زیادہ قابل احتساب اور مقبول ہے، تاہم ملک میں کیے گئے غیر جانبدارسروے ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی افغانوں میں بے نظیرمصائب کا باعث بنی ہے، ایک حالیہ گیلپ پول کے مطابق، 94 فیصد افغانوں نے ’’اپنی زندگیوں کو تکلیف سے عبارت قرار دیا ہے ۔‘‘

92 فیصد مردوں کے مقابلےخواتین میں 96 فیصد کا اپنی زندگیوں کے بارے میں یہی کہنا ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں کے درمیان مصائب کی سطح میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں تھا۔

گیلپ نے کہا کہ افغانستان میں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے، لیکن فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے، دنیا کی توجہ اس ملک سے ہٹ گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG