رسائی کے لنکس

تفریح کے منظرنامے کو بدلناچاہتی ہوں: ملالہ ہالی وڈ پروڈیوسر بن گئیں


ملالہہ یوسفزئی ۔ فائل فوٹو
ملالہہ یوسفزئی ۔ فائل فوٹو

دنیا کی کم عمر امن کی نوبیل انعام یافتہ اور لڑکیوں کی تعلیم کی سرگرم پاکستانی کارکن ملالہ یوسفزئی اب ہالی وڈ پروڈیوسر کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کر رہی ہیں۔

ملالہ نے ایک تازہ انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، نئے مصنفین اور مسلم کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والے ہدایت کاروں کو متعارف کراکے انٹرٹینمنٹ یعنی تفریح کے منظر نامے کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔

’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں ایک کارکن اور داستان گو ہوں‘‘

ملالہ نے ، جو سن 2012 میں طالبان کے حملے کے بعد دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کی ایک علمبردار ہیں، یہ بات امریکی میگیزین "ورائٹی" کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔

انہوں نے کہا: "میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سرگرم ہوں، اور میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمیں ایکٹیوزم کو صرف این جی اوز کے کام تک محدود نہیں رکھنا چاہیے"۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ملالہ نے کہا:" لوگوں کے ذہنوں اور نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کا عنصر بھی ہے، اور اس کے لیے کچھ اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔"

ملالہ اپنی یو نیورسٹی میں ۔ ای ایف پی فوٹو
ملالہ اپنی یو نیورسٹی میں ۔ ای ایف پی فوٹو

پچیس سالہ ملالہ نے، جو اب لندن میں مقیم ہیں، تین سا ل قبل "ایکسٹرا کریکیولر" کے نام سے اپنی فلم اور ٹی وی پروڈکشن کمپنی قائم کی تھی۔ کمپنی نے گزشتہ سال ایپل ٹی وی پلس کے ساتھ پروڈکشن کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ ان کی شراکت داری سے اس وقت تائیوانی امریکی مصنف ایلین ہسیہ چو کے ناول "ڈس اوریئنٹیشن" پر ایک فلم تکمیل کے مراحل میں ہے، جو ایک تائیوانی پی ایچ ڈی کے طالب علم سے متعلق ہے۔

انٹرٹینمنٹ کے افق پر غالب رجحانات سے متعلق بات کرتے ہوئے ملالہ نے انٹرویومیں اپنی شناخت کے حوالے سے اظہار کچھ یوں کیا:

"میں ایک عورت ہوں، مسلمان ہوں، پشتون ہوں، پاکستانی ہوں، اورغیرسفید فام ہوں"۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے ڈرامہ سیریز "سکسیشن، ٹیڈ لاسو اور ’سیورینس" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پروڈکشنز میں نمایاں کردار سفید فام لوگ ہیں ، خصو صأ بہت سارے سفید فام مرد۔

"اگر ہم ان شوز کو دیکھ سکتے ہیں، تو میرے خیال میں سامعین کو ایسے شوز دیکھنے کے قابل بھی ہونا چاہیے جو دوسری رنگت کے لوگوں پر بنائے جاتے ہیں، اور جن کی تیاری اور ہدایت کاری دوسری رنگت کے لوگوں کے ذریعہ ہوتی ہو، جس میں مرکزی کردار بھی ایسے ہی لوگ ادا کریں۔۔ یہ ممکن ہے، اور میں ایسا کام کروں گی۔"

انہوں نے کہا کہ وہ دوسری رنگت کے لوگوں کے متعلق عام طور پیش کیے جانے والےدقیانوسی تصورات سے ہٹ کر ان کے مختلف کردار پیش کرنا چاہتی ہیں۔

ملالہ نے کہا:"مجھے امید ہے کہ ہم ایک وسیع تناظر کے ساتھہ، اپنے معاشروں میں موجود بعض لگے بندھے تصورات کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ میں یہ بھی امید کرتی ہوں کہ مواد تفریحی ہو گا، اور لوگ ان کرداروں سے پیار کریںگے"۔

میگیزین کے مطابق ملالہ کی "ایکسٹرا کرکیولر" کمپنی اے ٹونٹی فور کے ساتھ شراکت میں کوریا کی ہوئی ہینیو برادری سے تعلق رکھنے والی ان ماہی گیر عورتوں پر ایک دستاویزی فلم بنا رہی ہے جن میں عورتین خاندان کی سربراہ بھی ہوتی ہیں، روزگار مہیا کرتی ہیں اور نانی اور دادی کے کردار بھی نبھاتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG