رسائی کے لنکس

خلا باز بیمار کیوں ہو جاتےہیں؟


 یورپی خلائی ادارے کا ایک خلاباز کینیڈی اسپیس سنٹر سے لانچ سے قبل ۔ فائل فوٹو
یورپی خلائی ادارے کا ایک خلاباز کینیڈی اسپیس سنٹر سے لانچ سے قبل ۔ فائل فوٹو

خلا کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہاں جراثیم اور وائرس نہ ہونے کے باعث بیمار ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے، لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اور خلائی مہمات پر جانے والے اکثر خلاباز، خلا میں قیام اورخلائی سفر کے دوران کئی قسم کے انفکشنز میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال تھا کہ کشش ثقل کی کمی یا اس کی عدم موجودگی سے خلابازوں کے جسم کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہےجس کی وجہ سے ان میں سے کئی خلا میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔لیکن خلا میں جسم کا مدافعتی نظام کیوں کمزور پڑ جاتا ہے ؟اس کا میکنیزم کیا ہے ؟اس بارے میں وہ واضح نہیں تھے ۔

تاہم حال ہی میں کینیڈا کی اسپیس ایجنسی کے تحت، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ساڑھے چار سے ساڑھے چھ ماہ گزارنے والے چودہ خلا بازوں پر کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق نےانہیں اس سوال کاممکنہ جواب حاصل کرنے میں مدددی کہ جیسے ہی انسان زمین کی کشش ثقل سے آزاد ہو کر خلا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے خون کے سفید خلیوں میں موجود ایک اہم جین لوکو سائٹس(leukocytes) کی تعداد تیزی سے کم ہو جاتی ہے۔

آپ نے یہ تو سنا ہو گا کہ خون کے سفید خلیے بیماریوں کے خلاف ہمارا دفاع کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ لوکوسائٹس جین ہی ہے۔ یہ جین ضرورت کے وقت اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے جو انفیکشن کے جراثیم اور وائرس کے حملوں کے مقابلے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں ۔ لیکن یہ جین خلا میں اپنا کام کیسے کرتا ہے ؟ اس بارے میں مزید بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خلا میں یہ مخصوص جراثیم یا وائرس کہاں سے آتے ہیں ؟

فائل فوٹو
فائل فوٹو

کیا خلا میں جراثیم اور وائرس موجود ہیں؟

سائنس دان اس کا جواب عمومی طور پر نفی میں دیتے ہیں۔

خلائی مہم پر جانے سے قبل ہرممکن یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خلاباز مکمل طور پر صحت مند ہوں۔ پرواز سے قبل انہیں کچھ عرصے کے لیے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بہترین صحت کے ساتھ خلائی سفر پر روانہ ہوں اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر محفوظ ماحول میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے خلاباز گاہے بگاہے انفکشنز میں کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں؟

سائنس دان کہتے ہیں کہ خلا میں جراثیم اور وائرس موجود نہیں ہوتے۔ انہیں خلاباز اپنے ساتھ خلا میں لے جاتے ہیں۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ہر انسان کے جسم میں لاتعداد جراثیم اور وائرس ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن وہ یا تو غیر فعال ہوتے ہیں یا جسم کے مدافعتی نظام کے مقابلےمیں اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ سر نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن جیسے ہی خلا میں انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑتا ہے وہ غالب آ جاتے ہیں۔

خلا میں جسم کا مدافعتی نظام کیوں کمزور ہو جاتا ہے؟

یہ ہی وہ مخصوص سوال تھا جس کا جواب سائنسدانوں کو اپنی اس نئی ریسرچ میں ملا جس میں انہوں نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ساڑھے چار سے ساڑھے چھ ماہ گزارنے والے 14 خلابازوں کے خون کے نمونوں پر تحقیق کی۔ ان میں 11 مرد اور تین خواتین خلاباز شامل تھیں جن کا تعلق کینیڈا اور امریکہ کے خلائی اداروں سے تھا۔

ان کے پرواز پر جانے سے پہلے ایک بار، خلائی اسٹیشن میں قیام کے دوران چار بار اور زمین پر واپسی کے بعد پانچ بار ان کے خون کے نمونے لیے گئے۔ ان کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ خلا میں پہنچنے کے بعد چند روز کے اندر ہی ان کے خون کے سفید خلیوں میں موجود لوکو سائٹس جین کی تعداد معمول سے ایک تہائی کم ہو گئی۔ خلا میں قیام کے عرصے میں یہ کمی برقرار رہی ۔ لیکن زمین پر آنے کے تقریباً ایک ماہ بعد لوکو سائٹس کی سطح معمول پر آ گئی۔

یہ ہی وہ شواہد تھے جن سے انہیں اس سوال کا جواب جاننے میں مدد ملی کہ خلا میں مدافعتی نظام میں کمزوری اور خلابازوں کے جلد بیمار ہونے کی وجہ ممکنہ طور پر خلا میں لوکوسائٹس جین کی تعداد میں تیزی سے ہونے والی کمی ہے ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

خلا میں لوکوسائٹس جین کی مقدار کیوں گھٹ جاتی ہے؟

سائنس دان کہتے ہیں کہ جب انسان کسی اعصابی دباؤ کا شکار ہوتا ہےتو جسم میں موجو د خوابیدہ ، غیر فعال اور کمزور وائرس اور بکٹیریا دوبارہ فعال ہو جاتے ہیں۔ خلا بازوں پر کی جانے والی ریسرچز سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ خلائی سفر اور خلا میں قیام کے دوران جب خلا بازوں کو سخت اعصابی دباؤ کا سامنا ہوا تو ان کے جسم میں موجود وہ مخصوص وائرس یا جراثیم دوبارہ فعال ہو گئے جن کے نتیجے میں ان میں انفیکشن یا ان مخصوص بیماریوں کی علامات ظاہر ہوئیں ۔

خلابازوں پر خلا میں اعصابی دباؤ کیوں ہوتا ہے؟

ماہرین کے نزدیک خلا بازوں کے اعصابی دباؤ کی کئی وجوہات ہیں جن میں پہلی تو یہ کہ انہیں صفر کشش ثقل کے ماحول میں تھوڑے یا زیادہ عرصے تک چھوٹی سی جگہوں پر بند حالت میں اپنے خاندان اور دوستوں سے علیحدگی میں رہنا پڑتا ہے۔ پھر ،خلا میں ان کے سونے جاگنے کے نظام میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے جب کہ انہیں خلائی تابکاری کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ اور دباؤ کا یہ ماحول ان کے جسم میں موجود کچھ ایسے وائرس اور بیکٹیریا کو دوبارہ فعال کردیتا ہے جو عام حالت میں غیر فعال ہوتے ہیں ۔

ریسرچ کے مرکزی مصنف ، کینیڈا کی یونیورسٹی آف اوٹاوا کے مالیکیولر بیالوجسٹ ، اودیت لینول کہتے ہیں کہ نسبتاً کمزور مدافعتی نظام خلا بازوں میں متعدی بیماریوں کے خطرے میں اضافہ کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں خلا میں ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور انفیکشن یا کمزور مدافعتی نظام سکے باعث بیماری میں شدت کی صورت میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس طبی سہولتیں اور ادویات محدود ہوتی ہیں۔

ریسرچ کے شریک مصنف، گائے ٹروڈل نے، جو اوٹاوا ہاسپٹل ری ہیب میڈیسن کے اسپیشلسٹ ہیں، کہا ہے کہ یہ ریسرچ خلا میں انسانی مدافعتی نظام میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو سمجھنے کی جانب پہلا قدم ہے ۔

خلا میں خلا بازوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی اہمیت میں اس لیے بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ ناسا 2025 میں چاند پر ایک مشن بھیجنے کا منصوبہ بنا رہاہے جس کے بعد مستقبل میں ناسا کے پروگراموں کے تحت خلا بازو ں کو چاند اورمریخ پر طویل دورانئے کے سفر کرنا ہوں گے ۔ جب کہ مریخ جانےاور واپسی کے مشن میں تین سال تک لگ سکتے ہیں۔

گائے ٹروڈل کا کہنا ہے کہ اس ریسرچ کے پیشِ نظر اب خلا بازوں کو متعدی امراض اور وائرس کے حملوں سے بچانے کے لیے مزید نئے اور مخصوص حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہو گی ۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG