رسائی کے لنکس

جوائے لینڈ: ایک عام کہانی جسے خاص انداز میں بیان کیا گیا


کراچی کے ایٹریم سنیما کے علاوہ شہر کے دیگر سنیما گھروں میں 'جوائے لینڈ' کا سینسر شدہ ورژن دکھایا جارہا ہے۔
کراچی کے ایٹریم سنیما کے علاوہ شہر کے دیگر سنیما گھروں میں 'جوائے لینڈ' کا سینسر شدہ ورژن دکھایا جارہا ہے۔

پاکستانی فلم 'جوائے لینڈ' کی صوبہ پنجاب کے علاوہ پاکستان بھر میں نمائش جاری ہے۔ 18 اکتوبر کو ریلیز ہونے والی فلم کو دیکھنے کے لیے نوجوان سمیت لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ سنیما کا رخ کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں واقع سینٹرل سینسر بورڈ سے کلیئر ہونے کے بعد بھی 'جوائے لینڈ' کو صوبہ پنجاب میں تاحال نمائش کی اجازت نہیں ملی۔البتہ کراچی کے ایٹریم سنیما کے علاوہ شہر کے دیگر سنیما گھروں میں 'جوائے لینڈ' کا سینسر شدہ ورژن دکھایا جارہا ہے۔

تاہم فلم کی ریلیز کے باوجود اس کے خلاف خلاف احتجاج تا حال جاری ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر پریس کلب کے باہر اس فلم کی نمائش کو روکنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

فلم کی کہانی ایک نوجوان حیدر (علی جونیجو) کے گرد گھومتی ہے جو شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک ٹرانس جینڈر رقاصہ بیبا (علینا خان) سے محبت کر بیٹھتا ہے ۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس واقعے کی حیدر کی ازدواجی زندگی اور بیوی ممتاز (راستی فاروق) پر کیا اثر پڑتا ہے۔

حیدر کے گھر میں اس کے عمر رسیدہ والد (سلمان پیرزادہ) ، بڑے بھائی (سہیل سمیر)، بھابی (ثروت گیلانی)اور ان کی چار بیٹیاں رہتی ہیں جب کہ ان کی پڑوسن (ثانیہ سعید) کا بھی ان کے گھر میں آنا جانا ہے۔

سرمد کھوسٹ اور صبیحہ سومار 'جوائے لینڈ' کے شریک پروڈیوسرز ہیں جب کہ فلم میں ایک ٹرانس جینڈر کو مرکزی کردار میں کاسٹ کرنے پر 'جوائے لینڈ' کی عالمی سطح پر کافی پذیرائی ہوئی ہے۔

ایک عام کہانی جسے خاص انداز میں بیان کیا گیا

پاکستان میں جب بھی کوئی منفرد یا روایتی موضوع سے ہٹ کر فلم ریلیز ہوئی ہے اس پر پابندی لگی ہے۔ اس سے قبل بھی سرمد کھوسٹ کی بطور ہدایت کار فلم 'زندگی تماشہ' بھی آج تک ریلیز نہیں ہوسکی۔

'جوائے لینڈ' میں بظاہر تو کچھ ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی جائے۔ ماضی میں بھی کئی ایسی پاکستانی فلمیں بنی ہیں جن میں لڑکے کو طوائف سے محبت ہوتے دکھایا گیا ہے۔

ایسی فلموں میں جہاں 50 برس قبل ریلیز ہونے والی وحید مراد اور رانی کی 'انجمن' قابلِ ذکر ہے وہیں 80 کی دہائی میں ندیم، سلمی آغا اور ثمینہ پیرزادہ کی فلم 'بازارِ حسن' کا نام بھی شامل ہےجسے بعد میں بالی وڈ میں بھی کاپی کیا گیا۔

لیکن فرق صرف اتنا ہےکہ 'جوائے لینڈ' میں معاشرے کی نظر میں بری سمجھی جانے والی عورت کی جگہ ایک ٹرانس جینڈر نے لی ہے۔

فلم میں ایک متوسط طبقے کی عورت کے پاس مہنگے آئی فون کا ہونا، ویل چیئر پر انحصار کرنے والے بڑی عمر کے شخص کا کبھی کبھی پیروں کے بل کھڑے ہو جانا اور ایک شادی شدہ شخص کا خوب صورت بیوی ہونے کے باوجود ایک ٹرانس جینڈر سے محبت کرنا ہر فلم بین کے لیے ہضم کرنا ممکن نہیں ہے۔

چوں کہ فلم کی کہانی پرانے لاہور کے ایک گھرانے کے گرد گھومتی ہے اس لیے یہاں کے مقامی افراد ہی اس کہانی کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں البتہ اسے پنجاب میں ریلیز نہیں کیا گیا۔

'جوائے لینڈ' میں جس طرح نئے اور پرانے لاہور کی عکاسی کی گئی ہے وہ قابلِ دید ہے۔ اس کے علاوہ پوسٹ پروڈکشن میں سینسر بورڈ کی وجہ سے کئی کمی بیشی دیکھی گئی یعنی فلم میں ایک ایسے سین کو بھی 'بلر' یعنی دھندلا کردیا جس میں میاں اور بیوی ایک دوسرےکو گلے لگاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ملک کے تین میں سے دو سینسر بورڈ نے پہلے اس فلم کو پاس کیا لیکن بعد میں ان میں سے ایک نے اس میں کچھ اعتراضات لگاکر مزید تبدیلیاں کی۔ ان تبدیلیوں میں جہاں گالیاں ہٹائی گئیں وہیں کچھ ایسے سین اور مکالمے بھی ہٹائے گئے جو بولڈ کے زمرے میں آتے ہیں۔

صائم صادق اس سے پہلے بھی 'ڈارلنگ' نامی ایک مختصرفلم بناچکے ہیں جس کو کان سمیت کئی عالمی فلمی میلوں میں خوب سراہا گیا تھا۔ اس فلم میں بھی علینا خان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے علینا خان کا کہنا تھا کہ وہ اس فلم میں کام کرنے کیے لیے رضامند اس لیے ہوئیں کہ اس میں ٹرانس کو ایک ٹرانس کے طور پر دکھایا گیا ہے جو کمزور اور بیچاری نہیں ہے۔

ان کے بقول "ہمارے ہاں عموماً ٹرانس کردار کو یا تو کامیڈی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یا پھر اس کا کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔لیکن اس فلم میں وہ دوسروں کی کہانی کا حصہ ہے، اور اسے بھی مرد اور عورت کی طرح محنت اور جدوجہد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔"

علینا کا مزید کہنا تھا کہ جوائے لینڈ میں ٹرانس کو ایک نارمل انسان کی طرح دکھا یا گیا ہے جسے غصہ آتا ہے، جلن بھی ہوتی ہے اور اسے پیار بھی ہوتا ہے۔

وہ پاکستانی فلمیں جنہیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:55 0:00

'جوائے لینڈ' میں نہ تو کوئی ہیرو ہے اور نہ ہی ولن۔ 'حیدر' کا مرکزی کردار ادا کرنے والے علی جونیجو کے خیال میں 'جوائے لینڈ' سے دیگر فلم سازوں کو حوصلہ ملے گا کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے اطراف کی کہانیاں سنائیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے علی جونیجو نے کہا کہ"فلم کی کہانی لاہور کے علاقے گوالمنڈی میں گھومتی ہے۔اس کردار کے لیے مجھے وہاں کے لوگوں اور ان کے خاندانوں سے ملنا پڑا تاکہ وہ اس کردار کو بخوبی ادا کر سکیں۔"

فلم میں ثروت گیلانی اور سہیل سمیر نے ایک ایسے جوڑے کا کردار ادا کیا جسے بیٹے کی آرزو ہوتی ہے لیکن اللہ انہیں چار بیٹیوں سے نوازتا ہے۔ فلم کے کلائمکس میں دونوں کی اداکاری کافی جان دار ہے ۔

اس وقت 'جوائے لینڈ 'کا جو ورژن سنیما میں دکھایا جارہا ہے اس میں بظاہر ایسا کچھ نہیں جو ٹی وی پر نشر نہ ہورہا ہو۔

'جوائے لینڈ' میں مرکزی کردار ادا کرنے والے علی جونیجو کے بقول جس وقت وہ یہ فلم میں کام کررہے تھے ان کے دماغ میں صرف ایک بات تھی کہ فلم کو مکمل کرکے ریلیز کرنا ہے نہ کہ اسے فیسٹیول میں بھیج کر ایوارڈز جیتنا۔

فلم دیکھنے والوں نے جہاں تھیٹر سے فلم میں آنے والے علی جونیجو کی اداکاری کو سراہا وہیں پہلی مرتبہ فلم میں کام کرنے والی راستی فاروق نے بھی سنیما بینوں کو خوب متاثر کیا ۔ انہوں نے حیدر کی بیوی کا کردار نبھایا جسے اپنے شوہر کے بدلتے ہوئے رویے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

راستی فاروق کو اتنا تو معلوم تھا کہ یہ فلم معاشرے میں بدلاؤ لانے میں مدد کرے گی لیکن یہ کان فلم فیسٹیول میں جائے گی اس کا انہیں اندازہ بھی نہیں تھا۔'

XS
SM
MD
LG