رسائی کے لنکس

عافیہ صدیقی فیصلے پرپاکستانی نژاد امریکیوں کا ملا جلا ردِعمل


19일 한국 대통령 선거에서 당선이 확정된 새누리당 박근혜 당선자가, 서울 당사에 도착해서 지지자들에게 손을 흔들고 있다.
19일 한국 대통령 선거에서 당선이 확정된 새누리당 박근혜 당선자가, 서울 당사에 도착해서 지지자들에게 손을 흔들고 있다.

نیو یارک کی وفاقی عدالت کی طرف سےجمعرات کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی گئی 86برس قید کی سزا کے بارے میں جب ہفتے کوپاکستانی نژاد امریکیوں کے خیالات معلوم کرنے کے لیےاُن سے رابطہ کیا گیا تو اُن کے جذبات میں ملا جلا رجحان پایا گیا۔

معروف تعلیم داں اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اِکنا) کے صدر، ڈاکٹر زاہد بخاری نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی سزا کا سن کر اُنھیں بہت افسوس ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک طرف تو صدر براک اوباما کی انتظامیہ مسلم دنیا خاص طور پر پاکستان میں امریکہ کے بارے میں رائے عامہ کو بہتر کرنے اور ڈپلومیسی کو موقعہ دے کر امریکی ساکھ کو بہتربنانے پر زور دے رہی ہے، تو دوسری طرف ‘ ایک قدم آگے دو قدم پیچھے’ کی مصداق، اِس طرح کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔

ورجینیا سے تعلق رکھنے والے، بیرسٹر عباد الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سزا کے لیے ثبوت موجود تھے، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا جرم اتنا ہی بڑا تھا جتنی سزا دی گئی ہے۔ اُن کے الفاظ میں، قتل کی کوشش اور قتل کرنے پر سزا میں بہت بڑا فرق ہوا کرتاہے۔


عبادالرحمٰن کے بقول، ‘پھر تحویل کا معاملہ آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عافیہ صدیقی کو پکڑا کہاں سے گیا اورامریکہ کیسے پہنچیں؟ پھریہ کہ، حوالگی کیسے عمل میں آئی؟ مزید یہ کہ امریکہ کو دوست بنانے ہیں یا مخالف؟ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت انسانی سلوک کے معاملےکو سامنے رکھنا از حد ضروری ہوا کرتا ہے۔’ اُنھوں نے اِس امید کا اظہار کیا کہ اپیل سنتے وقت اِن قانونی نکات اورانسانی تقاضوں کو اہمیت دی جائے گی۔

واشنگٹن میٹروپولٹن کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جاوید منظور کے الفاظ میں: ‘یہ ایک مشکل معاملہ ہے۔ ہمیں امریکی نظامِ عدل پر یقین بھی ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اور راستہ نکل آتا یا سزا زیادہ نہ ہوتی، تو بہتر تھا۔ظاہر ہے عدالت کے پاس کوئی ثبوت تو ہوگا۔ اب اپیل کی جائے کہ طویل سزا کم ہوسکے یا اُنھیں ڈپورٹ کر دیا جائے کہ پاکستان میں سزا کاٹیں۔’

نیو جرسی سے ڈاکٹر لقمان چودھری نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ملنے والی سزا اُن کے بقول جرم اور سزا کی بات ہی نہیں ہے۔ اُن کے الفاظ میں، اب بھی وقت ہے کہ حکومتِ پاکستان سرگرمی سے اپنا کردار ادا کرے۔

فیضان حق یونیورسٹی آف بفیلو اور بفیلو کالج میں پروفیسرہیں۔ اُن کے بقول اِس قانونی فیصلے کے پاکستانی نفسیات پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات پڑ سکتے ہیں، ‘ جب کہ، زیادہ امکان یہ ہے کہ منفی اثرات زیادہ پڑیں گے۔’

دوسری طرف، اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں کا ابھی تک ذہن دہشت گردی کے معاملات اور تازہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر مرکوز تھا اور عافیہ صدیقی کے مقدمےکے بارے میں فی الحال تفصیلات سے بے خبر ہیں کیونکہ امریکی اخبارات نے اسے زیادہ نمایاں طور پر شائع نہیں کیا۔

پاکستان امریکن کانگریس کے سابق صدر، خواجہ محمد اشرف نے کہا کہ امریکہ میں قانون کی حکمرانی ہے۔ اُن کے الفاظ میں، امریکی نظامِ عدل کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ فی الفور اپیل میں جایا جائے۔

ورجینیا سے 2008ء میں جان مک کین کے صدارتی کنویشن کے منتخب ڈیلیگیٹ ، حنیف اختر کے بقول، امریکی عدالتوں میں نہ تو کوئی تعصب ہے، نہ ہی وہ قانونی چارہ جوئی میں ملوث کسی فرد کے حق میں یا اُس کے خلاف ہواکرتی ہیں، وہ فیصلہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے دیتی ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: ‘یہاں کی عدالت میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں۔ قصور وار قصور وار ہے بے گناہ، بے گناہ۔ اگر کوئی صوابدید ہو سکتی ہے تو بس اتنی کہ فیصلے سے قبل سزا میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔’

حنیف اختر نے کہا کہ ‘مقدمہ کھلی عدالت میں چلا ہے۔ ڈاکٹرعافیہ خود بیان دے چکی ہیں اور قصور مان چکی ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے زور و شور سے اُن کا کیس لڑا۔ اُن کے وکیلِ صفائی نے عدالتی کارروائی میں حصہ لیا۔ میرے خیال میں سزا قانون اور انصاف کے مطابق ہے اور محترمہ قصور وار ہیں۔’

حنیف اخترنے جوصدر بش کے دور میں نیشنل ویٹرنز کمیشن کے رُکن رہ چکے ہیں، ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکی آئین کے مطابق صدر کو اختیار ہے کہ وہ عدالت کی دی ہوئی سزا کو کم یا معاف کر سکتے ہیں۔

پروفیسر عادل نجم، بوسٹن یونیوسٹی میں پروفیسر ہیں۔ اُن کے بقول، پاکستان میں عافیہ صدیقی پاکستانیوں کو امریکہ میں ملنے والے برتاؤ کی ایک علامت بن سکتی ہیں، جس کے باعث جو لوگ امریکہ خلاف جذبات رکھتے ہیں اُن کی رائے مزید خراب ہوجائے گی۔

اُن کے بقول، ‘پاکستان کی اسٹریٹ پر اِس مقدمے کا بہت ہی منفی اثر پڑا ہے۔ لیکن یہ اثر کتنے دِنوں تک رہے گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔’

عادل نجم نے خیال ظاہر کیا کہ حکومتی سطح پر اِس کا اثر نہیں پڑے گا، لیکن عوامی سطح پر پڑ چکا ہے جیسا کہ پاکستان میں مظاہرے ہونے سے ظاہر ہے۔‘یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی ہے۔ سیاسی طور پر یہ کہانی چلے گی۔ عدالتی نظام کے اپنے تقاضے ہیں۔ امریکہ میں إِس معاملے کو عدالتی معاملے کے طور پرہی دیکھا جارہا ہے، کورٹ نے جو کہ دیا کہ دیا۔ لیکن پاکستان میں لوگ اِسے سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ڈسکنیکٹ (بے ربطی کا معاملہ) ہے، جو سوچ کے فرق کے دھارے کا غماز ہے۔ ’

اُن کے بقول، ‘اِس حوالے سے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ہے، امریکی حکومت پر کچھ بھی نہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت نے کوشش نہیں کی۔ اول تو کسی امریکی کو پتہ بھی نہیں کہ کوئی عافیہ کیس بھی تھا۔ امریکی اخباروں میں مقدمے کا ذکر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ ’

دریں اثنا، جمعے کی رات جاری ہونے والے ایک اخبار ی بیان میں پاکستان امریکن نیشنل الائنس (پانا) نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ‘دخترِ پاکستان’ قرار دیا اور اعلان کیا ہے کہ پانا اُن کے کیس پر اپیل دائر کرے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ نے پہلے ہی سات سال کی سزا کاٹ لی ہے۔ ‘اِس ملک کے قانون کی پاسداری میں یقین رکھنے والے ہم لوگ، اپیل کریں گے اور ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کو انصاف دلوانے کے لیے جستجو کریں گے۔ ہم پاکستانی نژاد امریکیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ پُر امن، باخبر اور رابطے میں رہیں۔’

XS
SM
MD
LG