رسائی کے لنکس

فلسطینیوں کے حقوق، دو ریاستی حل کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا: محمود عباس


فلسطینی رہنما محمود عباس نے اقوامِ عالم کو خبر دار کیا ہے کہ دو ریاستی حل کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں محمود عباس نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے مکمل، جائز قومی حقوق کی تعبیر کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے، وہ غلطی پر ہوں گے۔

طویل تجربہ رکھنے والے 87 سالہ رہنما نے اس سلسلے میں پھر سے مذاکرات شروع کرنے اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی اپیل کی۔

محمود عباس کی جانب سے یہ اپیل ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس سلسلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل سے ہونے والے مذاکرات میں اب تک ہونے والی پیش رفت کافی مثبت رہی ہے لیکن سعودی عرب کے لیے فلسطینیوں کا معاملہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

عالمی ادارے سے خطاب میں فلسطینی رہنما نے کہا کہ "اقوامِ متحدہ کی کانفرنس دو ریاستی حل کو بچانے، صورتِ حال کو مزید سنگینی سے بگڑنے، خطے اور پوری دنیا کی سلامتی و استحکام کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کا آخری موقع ہو سکتی ہے۔"

محمود عباس کے خطاب سے ایک روز قبل اسراِئیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں سعودی عرب کو معمول پر لانے پر بات کی تھی۔

امریکہ تاریخی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کردار ادار کرتا رہا ہے۔صدر جو بائیڈن نے بدھ کو نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے ذریعے دو ریاستی حل کے راستے کو محفوظ رکھنے کے بارے میں بات کی تھی۔

لیکن نیتن یاہو کی سخت دائیں بازو کی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاری کو آگے بڑھایا ہے جسے بین الاقوامی طور پر ایک غیر قانونی اقدام سمجھا جاتا ہے۔

محمود عباس کی تقریر کے دوران ایک اسرائیلی سفارت کار نے جنرل اسمبلی سے اس وقت واک آؤٹ کیا جب فلسطینی رہنما نے اسرائیل کی 'نسل پرستی' کی پالیسیوں پر بین الاقوامی 'استثنیٰ' کی مذمت کی۔ یہ بیانیہ یہودی ریاست کو مشتعل کرتا ہے۔

محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کے 'نسل پرست، دہشت گرد آباد کار ہمارے لوگوں کو ڈرانے، مارنے، گھروں اور املاک کو تباہ کرنے، ہمارے پیسے اور وسائل کو چوری کرنے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

اسرائیل فلسطین تنازع، امریکہ کیا کر سکتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:32 0:00

اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے محمود عباس کے اس حالیہ بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ " نازی جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے وقت ہولوکاسٹ میں یہودیوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے سماجی کردار کی وجہ سے مارا تھا۔"

محمود عباس کے مذکورہ بیان پر اسرائیل سمیت کئی دیگر ملکوں کے رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔ اردن نے کہا تھا کہ محمود عباس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ "امن کے لیے کوئی شراکت دار نہیں ہیں اور وہ حقیقت سے مکمل طور پر لاتعلق اور غیر متعلق ہیں۔"

دوسری جانب سعودی عرب نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پیر کو یورپی یونین، اردن اور مصر کے ساتھ مشترکہ طور پر منعقد ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا جس میں امن عمل میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ یہودی ریاست کے تعلقات کا معمول پر آنا مشرق وسطیٰ کے لیے گیم چینجر ہوگا۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کا واحد قابلِ عمل حل دو ریاستوں کے قیام میں ہے۔

تاہم، امریکہ نے تقریباً ایک دہائی قبل سابق وزیر خارجہ جان کیری کی ناکام کوشش کے بعد سے دو ریاستی حل پر کوئی بڑا دباؤ نہیں ڈالا جب کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیلی اقدامات کو آشیرواد بھی دی تھی۔

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے مشرق وسطی کے مسئلے پر روایتی امریکی مؤقف کو بحال کیا ہے لیکن اسے سفارتی کامیابی کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں سعودی اسرائیل معاہدہ امریکہ کے انتخابی سال میں بائیڈن کے لیے خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی بن سکتا ہے۔

امریکہ کی کوششوں سے اب سے تین عشرے قبل اسی ماہ کے دوران اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان وائٹ ہاؤس میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔اس معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کی محدود خود مختار حکومت قائم ہوئی تھی لیکن یہ معاہدہ کبھی بھی مشرقِ وسطیٰ کے دیرپا حل کی طرف پیش رفت نہ کرا سکا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو جمعے کو جنرل اسمبلی سے خطاب کر یں گے۔ ان کے بقول مشرقِ وسطیٰ کی ترجیحات آگے بڑھی ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ عرب ریاستوں کے ساتھ معمول پر آنا فلسطینیوں کے ساتھ عمل کو پس پشت ڈال دے گا۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے' اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG