محمد حبیب زادہ/حسیب دانش علی کوزئی
لڑائی میں 10 برس کے حکمت اللہ کی ماں ہلاک ہوئیں؛ جس کے بعد، بچے نے امن تحریک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، جس کے ارکان جون کے مہینے سے افغانستان کے مختلف علاقوں سے اب تک سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے ہیں، جس کا پیغام 'امن کا قیام اور تشدد کا خاتمہ' ہے۔
حکمت اللہ نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ''ایک گولہ ہمارے گھر کو لگا اور میری ماں ہلاک ہوگئیں۔ میں امن مارچ میں اس لیے شریک ہوا، چونکہ میں نہیں چاہتا کہ کسی دوسرے بچے کی ماں لڑائی میں ہلاک ہو''۔
متعدد افغانوں کی طرح، حکمت اللہ ایک ہی نام سے جانا جاتا ہے۔ اُنھوں نے افغانستان میں لڑنے والے تمام فریق سے مطالبہ کیا ہے کہ امن کی راہ اپنائیں، تاکہ وہ اور دیگر بچے اسکول جا سکیں۔
بقول اُن کے، ''میں امن کا خواہاں ہوں، چونکہ میں اسکول جانا چاہتا ہوں''۔
اپنے والد کے ہمراہ حکمت اللہ جنوب مشرقی صوبہ غزنی میں 'ہیلند امن مارچ' میں شامل ہوا۔
امن کا پیغام
کابل پہنچنے پر اُن کا والد اپنے آبائی شہر، غزنی واپس چلا گیا۔ لیکن، حکمت اللہ تحریک کے ساتھ چلتا رہا، جو لوگ افغانستان کے شمال کی جانب مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جمعے کے روز گروپ مزار شریف شہر پہنچا، جو شمالی صوبہ بلخ کا دارلحکومت ہے۔ اُنھوں نےننگے پائوں 32 دِن متواتر 650 کلومیٹر پیدل سفر کیا ہے۔
مارچ میں شامل لوگ 10 اگست کو کابل سے بلخ کے لیے روانہ ہوئے۔ مارچ کرنے والے ایک فرد کے ہاتھوں میں ایک کتبہ تھا جس پر تحریر تھا: ''ہمارا پیغام امن کا پیغام ہے''۔
سفر مشکل تر اور دشوار گزار ضرور رہا، لیکن امید کی نوید کا ضامن تھا۔ یہ بات بلخ پہنچنے پر تحریک کے ایک رکن نے اخباری نمائندوں کو بتائی۔
حکمت اللہ جنوبی ہیلمند صوبے میں جس امن تحریک میں شامل ہوا، اُس کا آغاز ایک دھرنے سے ہوا تھا، جو صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ میں اسپورٹس اسٹیڈیم کے قریب دہشت گرد حملہ ہونے پر دیا گیا، جس میں کم از کم 14 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔