رسائی کے لنکس

افغانستان: نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک اور صحافی قتل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان کے مرکزی صوبے غور میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ سے 28 سالہ صحافی بسم اللہ ایمک کو ہلاک کر دیا۔

ہفتے حکام نے بتایا کہ افغانستان میں گزشتہ دو ماہ کے دوران پانچ صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 'صدائے غور' ریڈیو اسٹیشن کے ایڈیٹر انچیف کو صوبائی دارالحکومت فیروز کوہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔

صحافی کے قتل کی ذمہ داری فوری طور پر کسی عسکری تنظیم نے قبول نہیں کی۔

غور کے نائب گورنر حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ صدائے غور ریڈیو سے 2015 سے منسلک صحافی بسم اللہ کو فیروز کوہ میں نا معلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔

افغان صدر اشرف غنی نے صحافی کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت آزادیٔ اظہارِ رائے کی حمایت کرتی ہے اور اسے فروغ دینے میں مصروف ہے۔

اشرف غنی کا ٹوئٹ میں مزید کہنا تھا کہ 'طالبان' اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں ایسے حملوں سے صحافیوں کی آوازوں کو دبا نہیں سکتے۔

افغان صحافی کی ہلاکت پر امریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکی عہدیدار روس ولسن کا واقعے پر ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ صحافیوں پر کیے جانے حملے بزدلانہ اور ہتک آمیز ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آزادی اظہار پر ہونے والے حملے بند ہونے چاہئیں۔

قائم مقام افغان وزیر برائے ثقافت اور اطلاعات طاہر زوہیر نے حکومت سے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا۔

صحافیوں سے گفتگو میں طاہر زوہیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو لکھے گئے خط میں اپیل کی کہ وہ افغانستان میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

اس کے علاوہ جمعے کو سول سوسائٹی کے ایک کارکن کو بھی نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کر دیا۔

دارالحکومت کابل میں بھی گزشتہ ماہ 20 دسمبر کو قانون ساز خان محمد وردک پر ہونے والے کار بم حملے میں 10 افراد ہلاک جب کہ 52 زخمی ہوئے تھے۔

افغان وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی کے مطابق حملے میں خان محمد وردک محفوظ رہے تھے۔ جب کہ زخمیوں میں خواتین اور بچے شامل تھے۔

افغان حکام اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات کے باوجود حالیہ دنوں میں صحافیوں، سرکاری حکام اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

مزید امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا: غلطی یا حکمتِ عملی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:53 0:00

دسمبر میں طالبان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی ہلاکتوں میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

افغانستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغان حکام اور طالبان کے درمیان 20 برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔

افغانستان کے خفیہ ادارے 'نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی' (این ڈی ایس) کے سربراہ احمد ضیا سراج کا گزشتہ ماہ 20 دسمبر کو کہنا تھا کہ گزشتہ نو ماہ کے دوران طالبان اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں نے افغانستان میں 18 ہزار 200 حملے کیے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری کے آخر میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے تحت غیر ملکی افواج کو 2021 کے وسط سے افغانستان سے واپس جانا ہے۔

مذکورہ معاہدے کے بعد کئی ماہ تک افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کی رہائی پر تنازع رہا۔ بعد ازاں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہوا جس کے اگلے مرحلے میں فریقین کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے۔

اس وقت دونوں فریقین نے مذاکرات میں 14 دسمبر سے 5 جنوری تک کا وقفہ لیا ہے اور اس کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ جن کا مقصد افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے اتفاق رائے سے راستہ تلاش کرنا ہے۔

افغانستان میں حکومت تشدد میں اضافے کا الزام طالبان پر عائد کرتی ہے۔ جب کہ طالبان کی جانب سے عمومی طور پر کسی بھی دہشت گردی کے واقعے پر کوئی واضح بیان سامنے نہیں آتا۔ البتہ طالبان کئی واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG