رسائی کے لنکس

تشدد، گرفتاریاں اور غیر واضح پالیسی، افغان صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل ہوچکی


کابل میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی کوریج کرنے والے ایک صحافی سے طالبان پوچھ گچھ کررہے ہیں۔ 28 دسمبر، 2021ء (فائل فوٹو)
کابل میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی کوریج کرنے والے ایک صحافی سے طالبان پوچھ گچھ کررہے ہیں۔ 28 دسمبر، 2021ء (فائل فوٹو)

تشدد، گرفتاریاں اور غیر واضح میڈیا قوانین کی وجہ سے افغان صحافیوں کی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل مرحلہ بن چکا ہے اور ان سختیوں میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ متعدد صحافیوں پر حملےکیے گئے ہیں یا انہیں نظربند کیا گیا ہے؛ اور جنہیں مارا پیٹا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ طالبان نےان حملوں کے ذمہ دار افراد کو جواب دہ نہیں ٹھہرایا ہے۔

میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں اور قوانین کا فقدان مسائل کو بد سے بدتر کر رہا ہے۔

رواں سال کے آغاز سے اب تک کم از کم چار صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ان میں سے تین کو چھ جنوری کو اس وقت گرفتار کیا گیاجب وہ پنج شیرصوبے میں ایک احتجاجی مظاہرے کی کوریج کر رہے تھے ،جہاں ایک طالبان جنگجو نے ایک شہری کو ہلاک کر دیا تھا۔

یو ٹیوب پر چلنے والے چینل 'کابل لورز‘ کو فالو کرنے والوں کی تعداد دولاکھ چوالیس ہزار ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد ،صحافیوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ من گھڑت خبریں تیار کرتے ہیں۔ مجاہد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد صحافیوں کی ایک ٹیم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ شمال مشرق میں پنج شیر سے واپس آ رہے تھے، جہاں انہوں نے معاملے کی چھان بین کئے بغیر شور و غوغا کیا اور ویڈیوز بنائیں۔ترجمان نے کہا کہ طالبان انٹیلیجنس نے ان صحافیوں کو سزا دینے کے لیے گرفتار کیا اور انہیں سمجھایا کہ،اس سے عوامی اور قومی سیکیورٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس سےعلاوہ طالبان نے آٹھ جنوری کو کابل یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کے ایک پروفیسر ،فیض اللہ جلال کو بھی گرفتار کیا۔جلال کو چار روز کے لیے اس الزام پر حراست میں رکھا گیا کہ وہ مبینہ طور پر لغو بیانات دیتے ہیں اور لوگوں کو طالبان کے خلاف اکساتے ہیں۔

اپنی رہائی کے بعد جلال نے وائس آف امریکہ کے ساتھی نیٹ ورک 'ریڈیو آزادی' کو بتایا کہ ان کی گرفتاری کا تعلق نومبر میں ٹیلویژن پر نشر ہونے والی اس بحث سے تھا جس میں انہوں نے طالبان کے ترجمان کے ساتھ حصہ لیا تھا۔

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد (فائل اے پی)
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد (فائل اے پی)

افغانستان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے نائب صدر حجت اللہ مجددی کا کہنا ہے کہ مسائل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان نے صحافیوں کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے ،جب کہ کوئی میڈیا قانون موجود نہیں ہے۔

ستمبر میں طالبان نے میڈیا کو متعدد ہدایات جاری کیں ،جن میں اسلام یا قومی شخصیات کے خلاف مواد پر پابندی لگا دی گئی اور کہا کہ میڈیا کو رپورٹینگ کے لیے حکام سے رابطہ کرنا چاہیے۔لیکن صحافیوں اور میڈیا تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان نے یہ نہیں بتایا کہ پچھلی حکومت کے دور کے میڈیا قوانین ابھی لاگو ہیں یا نہیں۔

صحافیوں کی بین الاقوامی فیڈریشن نے مبینہ طور پر جبر اور زیادتی پر مبنی ماحول کی مذمت کرتے ہوئے طالبان سے کہا ہے کہ وہ گرفتار صحافیوں کو رہا کریں اور ان صحافیوں کو انصاف فراہم کریں جن پر حملےکیے گئے ہیں یا جنہیں دھمکیاں دی گئی ہیں۔ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ طالبان میڈیا کو ہراساں کرنا بند کریں اور پریس کی آزادی کو محفوظ بنانے کےلیے ایک واضح عہد کریں۔

افغانستان میں وکلا یونین کے ایک رکن، مصباح کا کہنا ہے کہ طالبان کو ملک کے صحافیوں کو انصاف تک رسائی کی ضمانت دینی چاہیے۔انہیں کم از کم ایسا طریقہ کار بنانا چاہیےجو صحافیوں کی پریشانیوں کا ازالہ کر سکے۔

XS
SM
MD
LG