رسائی کے لنکس

افغانستان جنگ کے دس سال۔۔۔امن کتنی دور؟


افغانستان جنگ کے دس سال۔۔۔امن کتنی دور؟
افغانستان جنگ کے دس سال۔۔۔امن کتنی دور؟

دس سال قبل سات اکتوبر کے دن امریکہ اوراس کے نیٹو اتحادیوں نےگیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے مبینہ ذمہ داروں کی تلاش میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ گزشتہ دس برسوں میں افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ، واشنگٹن اور پاکستان کے ساتھ ساتھ نیٹو اتحاد میں شامل اُن ملکوں میں بھی مرتب کیا جا رہا ہے ، جن کے فوجی اس وقت افغانستان میں موجود ہیں ۔ دس سال پہلے امریکہ اور اتحادی افواج کے حملے نے طالبان کا اقتدار تو ختم کر دیا تھا ، مگر کوئی نہیں جانتا کہ افغانستان ابھی قیام امن سے کتنا دور ہے۔

اس دن کے موقع پر برسلز میں نیٹو ملکوں کے وزرا کے اجلاس سے خطاب میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندریس فوخ راس موسن نے کہا ہے کہ نیٹو افغانستان کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں 2014ء میں افغان اداروں کے سپرد کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم ہے ۔ اور آج افغانستان کے سات صوبے افغان سیکیورٹی فورس کے کنٹرول میں ہیں ۔ لیکن امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں کوافغانستان کے معاملے میں پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے ۔

دس سال پہلے طالبان کے اقتدار کا خاتمہ اتنی اسانی سے ہو جائے گا ، اس کی امید کسی کو بھی نہیں تھی ۔ لیکن کسی کو یہ امید بھی نہیں تھی کہ نیٹو افواج دس سال بعد بھی افغانستان کے پہاڑوں میں القاعدہ اور طالبان جنگجووں کی تلاش میں ہونگی ۔یہ اکتوبر 2001ء کی بات ہے جب امریکی افواج نے فضائی حملوں کی مدد سے طالبان کو کابل سے باہر نکالا تھا ۔ طالبان اور القاعدہ کے جنگجووں کو تورا بورا کے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے اپنے لئے نئے ٹھکانے تلاش کر نے پڑے اور تب سے اب تک یہ لڑائی جا ری ہے ۔ امریکہ کی افغان پالیسی کے بعض ناقدین کے مطابق طالبان جنگجووں کا فرار اس وقت افغانستان میں غیر ملکی افواج کی ناکافی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہوا ۔ اس تنقید کو نیٹو کی قیادت نے خود بھی تسلیم کیا ہے ۔

ایساف کے ترجمان جنرل کارسٹین جیک سن کا کہناہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران کئی غلطیاں ہوئیں اور 2009ء سے پہلے تو یقیناً بہت غلطیاں ہوئیں ۔ پہلی غلطی تو طالبان کی طاقت کا غلط اندازہ لگانے کی تھی ۔ کیونکہ 2001ء کی کامیابیوں نے ہمیں خوش فہمی میں مبتلا کردیاتھا۔

غیر ملکی افواج کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے طالبان کو دوبارہ افغانستان میں داخل ہونے اور مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا ۔ نیٹو افواج سوائے اپنے آپ کو سنبھالنے کے کچھ نہ کر سکیں ۔ 2003ء میں عراق جنگ کے آغاز کے بعد امریکہ کو اپنے فوجی وسائل افغانستان سے عراق منتقل کرنے پڑے ،اور کچھ ابتدائی کامیابیوں کے بعدوہاں بھی مشکلات پیش آئیں ۔ اس پر امریکی حکمت عملی کو عراق سے صدام حسین کے حامیوں کے خاتمے تک محدود کردیا گیا اور یہ طریقہ کامیاب بھی رہا ۔ ، اسی طریقہ کار کا نوٹس افغانستان میں موجود انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس(آئیساف)نے بھی لیا ۔جنرل جیکب سن کا کہناہے کہ عراق سے ملنے والا بنیادی سبق یہ تھا کہ 2009ء کے آخر تک افغانستان میں شدت پسندوں کے خاتمے کے لئے کچھ کرنا ہوگا اور ساتھ ساتھ افغان فوج بھی تیار کرنی ہوگی ۔

امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے بعد 2009ء کے آخرمیں افغانستان میں مزید 30 ہزار فوجی روانہ کئے گئے ۔ جس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی اپنی فوج کی تعداد اور تربیت بہتر بنانے اور ڈرون طیاروں کے ذریعے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔ امریکی فوج کے سبکدوش ہونےو الے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے اپنے افغانستان کے آخری دورے میں امریکی فوجی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے دشمنوں کو ، اور اتحادی افواج پر حملے کرنے والوں کو پچھلے ایک سال میں زبردست نقصان برداشت کرنا پڑا ہے ۔ انہیں اپنے ٹھکانے چھوڑ کربھاگنا پڑا ہے ، مقامی آبادی میں ان کا اثر کم ہوا ہے ، ان کے لیڈر مارے گئے ہیں اور کئی گرفتار کئے جا چکے ہیں ۔

لیکن اسی تقریر میں ایڈمرل ملن نے ان کامیابیوں کو نازک اور ناپائیدار قرار دیا تھا ۔ اب افغانستان میں طالبان کی جانب سے اہم شخصیات کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور مفاہمتی عمل جاری رکھنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ، افغانستان کے استحکام کے لئے کسی پائیدار منصوبے تک پہنچنے کی خواہش شدیدتر ہوتی جا رہی ہے ، امریکہ ہی نہیں ، نیٹو اتحاد میں شامل ممالک بھی 2014ء تک افغانستان سے اپنے فوجی کردار کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی حل تک پہنچنے کا راستہ افغان عوام اور خطے کے ملک مل جل کر ہی تلاش کرسکتے ہیں ۔

XS
SM
MD
LG