رسائی کے لنکس

افغانستان میں جنگی جرائم: امریکہ نے عالمی عدالت کا فیصلہ مسترد کر دیا


امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حقیقتاً ایک غیر جواب دہ سیاسی ادارے کی جانب سے کیا گیا اقدام ہے۔ (فائل فوٹو)
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حقیقتاً ایک غیر جواب دہ سیاسی ادارے کی جانب سے کیا گیا اقدام ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ عالمی عدالت برائے جرائم (آئی سی سی) نے ایک ایسے موقع پر افغانستان میں امریکہ، اتحادی افواج، طالبان سمیت دیگر فریقین کی جانب سے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات​ کا غیرمحتاط حکم جاری کیا ہے جب چند روز پہلے امریکہ نے افغانستان سے متعلق ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو امن لانے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ حقیقتاً ایک غیر جواب دہ سیاسی ادارے کی جانب سے کیا گیا اقدام ہے، جو خود کو ایک قانونی ادارہ قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ افغانستان کی حکومت نے خود آئی سی سی سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے کو آگے نہ بڑھائیں، لیکن آئی سی سی کے سیاست دانوں کے اور مقاصد تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ آئی سی سی میں ایک فریق نہیں ہے اور ہم اس سلسلے میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔

بیان میں اسے ایک ایسا ہی فیصلہ قرار دیا گیا ہے جس پر اس کے ناقدین تین عشروں سے تنقید کرتے آ رہے ہیں۔

عالمی عدالت نے پراسیکیوٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان میں یکم مئی 2003 کے بعد ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کی جامع تحقیقات کریں۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ کون سی ایسی ٹھوس وجوہات ہیں جس بنا پر عدالتی دائرہ اختیار کے تحت تحقیقات آگے بڑھنی چاہئیں۔

نیدرلینڈ کے شہر 'دی ہیگ' میں موجود جرائم کی عالمی عدالت کے ایک بینچ نے گزشتہ سال اپنے پراسیکیوٹر فاتو بینسودا کی جانب سے 2017 میں دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے تحقیقات نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ ایسا کرنے سے انصاف کے حصول کا مفاد پورا نہیں ہوتا۔

درخواست گزار فاتو بینسودا نے نظرثانی کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ عدالت نے اپنے گزشتہ فیصلے میں حقائق کو نظر انداز کیا۔ اُن کے بقول ایسی ٹھوس وجوہات موجود ہیں، جس پر یہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔

عالمی عدالت کے پراسیکیوٹرز نے 2006 میں افغانستان میں جنگی جرائم سے متعلق ابتدائی تحقیقات شروع کی تھیں۔ البتہ 2017 میں مبینہ جرائم کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

جرائم کی عالمی عدالت کے ججز ایک کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
جرائم کی عالمی عدالت کے ججز ایک کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے عالمی عدالت برائے جرائم کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

تنظیم کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے اُن ملکوں کو بھی پیغام جائے گا جو آج کے دور میں جنگوں میں ملوث ہیں۔

امریکہ ماضی میں افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی کھل کر مخالفت کرتا رہا ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر کا 2018 میں ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُنہوں نے عالمی عدالت کو ایسا فیصلہ کرنے سے باز رہنے اور ججز کو گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

امریکی حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ امریکہ نے آئی سی سی کے قیام پر دستخط نہیں کیے۔ لہذٰا اس کے شہریوں پر مذکورہ عدالت کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔

نائن الیون حملوں کے بعد 2001 میں امریکہ نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ 19 سال تک جاری رہنے والی اس جنگ کے دوران ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔

اس دوران انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کی جانب سے فریقین پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات تواتر کے ساتھ لگتے رہے ہیں۔

عالمی عدالت کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 29 فروری کو امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر کے 19 سال سے جاری جنگ ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔

البتہ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر افغان حکومت کے تحفظات اور تشدد کے بعض واقعات کے بعد ماہرین کے بقول مذکورہ معاہدے پر سوالیہ نشان لگے گئے ہیں۔

لیکن امریکہ کے ایلچی برائے افغان مفاہمت نے طالبان رہنماؤں اور افغان حکومت کے عہدے داروں پر زور دیا ہے کہ خیر سگالی کے طور پر مخصوص تعداد میں ایک دوسرے کے قیدی رہا کر دیں۔ البتہ افغان حکومت کا موقف ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بین الافغان مذاکرات میں ہی زیر غور آئے گا۔

XS
SM
MD
LG