رسائی کے لنکس

طالبان کا نظریہ تھا کہ عورت کی جگہ ’گھر یا پھر قبر‘


طالبان کا نظریہ تھا کہ عورت کی جگہ ’گھر یا پھر قبر‘
طالبان کا نظریہ تھا کہ عورت کی جگہ ’گھر یا پھر قبر‘

’دس سال پہلے کی نسبت اب افغانستان میں خواتین خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتی ہیں، کیونکہ طالبان کی حکومت کے گِرنے کے بعدافغان خواتین نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں اورہر شعبے میں اپنے آپ کومنوایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان خواتین نے نہ صرف جنگوں بلکہ ملک کی تعمیرِ نو میں بھی حصہ لیا ہے‘

کابل میں مبصرین اور عوامی نمائندوں کا خیال ہے کہ افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سےحملوں کے دس برس بعد اگر کسی بڑی کامیابی یا پیش رفت کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو وہ خواتین کے شعبے میں ترقی ہے۔ ان دس سالوں کے دوران لڑکیوں کی تعلیم ،صحت اور خواتین کے کام کرنے کےشعبوں میں حقیقی پیش رفت ہوئی ہے۔ جبکہ، نئے آئین میں خواتین کو مساوی حقوق دئے گئے ہیں۔

آج سے پورے دس برس پہلے طالبان کے زیر حکومت افغانستان میں نہ صرف خواتین کی تعلیم پر پابندی تھی، ان کو روزگار کے مواقع سے محروم رکھا گیا تھا اور بازاروں میں رشتےدار مرد کے بغیر ان کا جانا قابلِ سزا تھا، بلکہ انہیں بہت سی صورتوں میں صحت کی بنیادی سہولتوں اور حقوق سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔

افغانستان کی ایک خاتون وکیل حبیبہ کاکڑ نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو بتایا کہ طالبان آج سے دس برس قبل، خواتین کو ہر طرح سے پریشان کرتے تھے۔ عورتوں کو بازار جانے کی اجازت نہیں تھی اور بازار میں اُن کو بید سے پیٹا جاتا تھا ۔ طالبان کہا کرتے تھےکہ عورت کی جگہ گھر یا پھر قبر ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت اپنی ساری زندگی چار دیواری میں گزارے۔

حبیبہ کاکڑ کے مطابق افغان عورتوں کی خواہش ہے کہ ہر شعبے میں اُن کی نمائندگی ہو اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں ۔ حبیبہ کا کہنا تھا کہ دس سال پہلے کی نسبت اب افغانستان میں خواتین خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتی ہیں، کیونکہ طالبان کی حکومت کے گرنے کے بعد افغان خواتین نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں اورہر شعبے میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تاریخ گواہ ہےکہ افغان خواتین نے نہ صرف جنگوں بلکہ ملک کی تعمیرِ نو ٕمیں بھی حصہ لیا ہے۔

دوسری جانب، افغان پارلیمان کی رکن میرمن اریان نے’ وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دس برس بعد آج افغا نستان میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی آزادی ہے۔ وہ حکومت میں وزیر ، پارلیمان میں ممبر اور وکلا ، اساتذہ اور ڈاکٹروں کی حیثیت سے کام کر سکتی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کےمطابق افغان خواتین ، طالبان سےممکنہ سیاسی مصالحت کوگزشتہ دس برس کی پیش رفت کے لئے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔

اِس بارے میں میرمن اریان کا کہنا تھا کہ، ’ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں وہ حقوق نہیں مل سکتے جو مغربی دنیا میں عورتوں کوملے ہیں۔ لیکن، ہم عورتوں کو وہ تنگ نظر سیاست بھی قبول نہیں ہے۔ ہمیں ’گھر یا قبر‘ کا نظریہ ہر گز قابل قبول نہیں۔ ہم افغانستان کے آئین اور اسلام کے مطابق عورتوں کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والی اِن خواتین نے ایک دوسرے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ جنگ سے تنگ آچکی ہیں اور وہ بھی ملک میں امن کی خواہاں ہیں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا امن معاہدے کرتے وقت خواتین کے حقوق کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اُنھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اُنھیں مصالحت کی صورت میں طالبان کا گزشتہ اندازِ حکومت یا نظریہ قابل قبول نہیں ہو گا ، اور یہ کہ افغان خواتین کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئیں جو بیشتر ترقی پسند مسلمان ملکوں کی خواتین کو حاصل ہیں۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ سمیت حقوق انسانی کے کئی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کے حوالے سے اِس نازک پیش رفت کو افغانستان کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورتحال اور طالبان کے دوبارہ ابھرنے سے خطرہ ہے۔ اِنہی خدشات کا اظہار لورا بش نے بھی ’وائس آف امریکہ‘ سے ایک انٹرویو میں کیا۔ اُن کے الفاظ میں: ’ میں فکر مند ہوں، تاہم مجھے امید ہے کہ اِن امن مذاکرات میں تمام لوگ افغانستان کے نئے آئین کی پاسداری کریں گے، جو مرد اور عورت دونوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ میرانہیں خیال کوئی بھی افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں واپس جانا چاہتا ہو‘۔

مبصرین اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مختلف شعبوں کی طرح ،خواتین کے شعبے میں بھی آزادی اور خوشحالی افغاستان میں سکیورٹی اور استحکام کی عمومی صورتحال سے جُڑی ہوئی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG