رسائی کے لنکس

افغانستان: 'لگتا ہے اس ملک میں لڑکی ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"آج صبح جب میں حسبِ معمول دفتر کے لیے تیاری کر رہی تھی تو اچانک مینیجر کی کال موصول ہوئی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ کال اٹھانے پر انہوں نے بتایا کہ دفتر آنے کی ضرورت نہیں ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بعد میں بتا دیا جائے گا۔"

یہ کہنا ہے کابل کی رہائشی نیلوفر فیصل کا جو ایک مقامی پرائیویٹ فرم کے ساتھ وابستہ تھیں۔

ہفتے کو افغانستان کی وزارت برائے معیشت نے ایک خط میں مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو تاکید کی تھی کہ وہ آئندہ احکامات تک خواتین کو کام کرنے سے روک دیں۔

طالبان کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل یونیورسٹیوں میں بھی خواتین کی کلاسز کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس عمل کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی اور افغانستان کے اندر احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی تھیں۔

نیلوفر فیصل اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں۔انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سابق دورِ حکومت میں وہ ایک دفتر میں بطور ایڈمن مینیجر کام کرتی تھیں اوراسی تنخواہ سےاپنی پڑھائی کےساتھ ساتھ گھر کے اخراجات بھی اٹھاتی تھیں۔

طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جب خواتین کے روزگار کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو انہیں بھی اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ جس کے بعد انہوں نے ایک چھوٹی سی پرائیویٹ کمپنی میں نوکری شروع کی تھی لیکن اب وہ اس نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔

نیلوفر فیصل کے مطابق وہ اپنی والدہ، بہن اور بھائی کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ گھر کا کرایہ زیادہ ہے، افغانستان میں اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور معاش کے ذرائع ایک کے بعد ایک بند ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق گزشتہ تین دنوں سے وہ گھر سے باہر نہیں نکلی ہیں۔ ان کا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا، ان کا گھرانہ چار افراد پر مشتمل ہے لیکن کوئی بھی ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر رہا۔ وہ ہر وقت سونا چاہتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے اس فیصلے سے وہ نفسیاتی مریضہ بنتی جا رہی ہیں۔

طالبان کے مطابق مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ خواتین کے لیے یہ اقدام اس لیے اٹھانا پڑا کیوں کہ کچھ تنظیمیں خواتین کے لیے لازمی حجاب اور ڈریس کوڈ پر عمل درآمد نہیں کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو تنظیمیں اس حکم پر عمل درآمد نہیں کریں گی ان کے ورک پرمٹ معطل کر دیے جائیں گے۔

گزشتہ ہفتے طالبان نے یونیورسٹیوں میں خواتین کے داخلے پر پابندی یہ کہہ کر لگا دی تھی کہ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کی پاسداری کے علاوہ کچھ ایسے مضامین بھی تھے جو افغانستان کی ثقافت اور اسلامی نظام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

کابل کی رہائشی زحل ناصری رنا یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کی طالبہ تھیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ حجاب کی پاسداری کی ہے۔ ان کی یونیورسٹی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اوقات کار الگ تھے اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اب وہ یونیورسٹی نہیں جا سکتیں تو جیسے ان کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا گیا ہو۔

زحل کے بقول، "میں نے اپنے مستقبل کے لیے بہت سارے خواب بُن رکھے تھے جن کا حصول اب ناممکن نظر آتا ہے۔"

زحل ناصری کے مطابق ان کی دوسری بہن بھی یونیورسٹی کی طالبہ تھیں اور وہ بھی اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان کے خراب اقتصادی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ قریبی سیلون میں کام کرتی تھیں۔ لیکن اب وہ سیلون بھی بند کر دیا گیا ہے اس طرح وہ بیک وقت تعلیم اور روزگار دونوں سے محروم ہو گئی ہیں۔

زحل ناصری کے مطابق انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ان کے ساتھ ایسے اچانک کیوں ہو رہا ہے؟ وہ کوئی گناہ تو نہیں کر رہی تھیں، وہ تو بس علم حاصل کرنا چاہتی تھیں تاکہ اپنی خوابوں کی تعبیر پا سکیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں جیسے لڑکی ہونا ہی ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔

افغانستان کی گزشتہ حکومت میں پارلیمان کی رکن شکریہ بارکزئی کا کہنا ہے کہ طالبان نہ صرف لڑکیوں بلکہ لڑکوں کی تعلیم سے بھی خوف زدہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طالبان کی سوچ اور نظریہ اپنے پہلے دورِ حکومت 1996-2001 کی عکاسی کرتا ہے، اور موجودہ دورِ حکومت یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم بلکہ افغانستان کی ترقی اور تاریخ کے بھی خلاف ہیں۔

افغانستان میں خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی اور ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری محکموں میں کام کی بندش پر بات کرتے ہوئے شکریہ بارکزئی کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان میں خواتین کو مزید محدود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیسا حق خواتین کو مغربی اور حتیٰ کہ اسلامی ممالک میں دیا جاتا ہے وہ حق ان سے چھین لیا جائے۔

شکریہ بارکزئی کے خیال میں طالبان چاہتے ہیں کہ افغان خواتین کو اپنے حصار میں رکھیں تاکہ وہ ان کے تابع زندگی گزاریں۔

دوسری جانب افغانستان میں محکمہ اعلیٰ تعلیم کے سربراہ نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم، حجاب کی پابندی، مقامی اور غیر ملکی تنظیموں میں روزگار کی بندش کے اقدام کا دفاع کیا ہے۔

شیخ ندا محمد ندیم کہتے ہیں طالبان حکومت کی ترجیح لوگوں کی خوشنودی نہیں بلکہ افغانستان میں دین کا نفاذ ہے اور ان کے تمام فیصلے دین کے مطابق ہیں جن سے متعلق وہ کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ان کے مطابق اگر عام لوگوں اور عالمی برادری کے تابع زندگی گزارنی تھی تو پھر ملک اسامہ بن لادن کے حوالے کر دیا ہوتا اور خواتین کو وہ آزادی دے دی ہوتی جس کی خواہش کا اظہار وہ اب کر رہی ہیں۔ طالبان کا نظام بھی برقرار رہتا اور اتنی بڑی جنگ کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔

XS
SM
MD
LG