رسائی کے لنکس

مصلحت یا حکمتِ عملی؟ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملوں سے کیوں نہیں روکتے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں سرگرم کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ کالعدم تنظیم کی جانب سے آٹھ سال بعد کسی خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس کوئی منظم علاقہ موجود نہیں ہے لیکن ان کی کارروائیاں صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور حتیٰ کہ اسلام آباد تک پھیل گئی ہیں۔ ایسے میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ان کی روک تھام بڑے چیلنج سے کم نہیں۔

پاکستان کی جانب سے یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے جہاں سے وہ پاکستان میں حملوں کے احکامات جاری کرتی ہے۔ ان حملوں کو روکنے کے لیے ماضی قریب میں افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں جو سود مند ثابت نہیں ہو سکے۔

ملک بھر میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیشِ نظر پاکستان نے متعدد مرتبہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو شدت پسندی کی روک تھام کے بارے میں تاکید بھی کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف بطور 'حکمتِ عملی' استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اس میں پہل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اصرار کے باوجود افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

ان کے بقول، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو بطور پریشر ٹیکٹکس استعمال کر رہے ہیں تاکہ پاکستان عالمی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دے۔"

حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق پاکستان یک طرفہ سوچ کا حامی نہیں اور اس حوالے سے عالمی برادری کی سوچ کا احترام کرے گا۔

'افغان طالبان نیا محاذ نہیں کھول سکتے'

جاوید اشرف قاضی کے مطابق اس وقت افغانستان میں طالبان اتنے مضبوط نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنے لیے نئے محاذ کھولیں۔

ان کے بقول، افغانستان میں داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں اس لیے ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کی صورت میں یہ خطرات بارہا موجود ہیں کہ کہیں وہ بھی ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نہ مل جائے۔

شدت پسندی کے موضوع کے ماہر اور سینئر صحافی داؤد خٹک کہتے ہیں سالوں تک پاکستان نے افغان طالبان کو 'اسٹرٹیجک ڈیپتھ' کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب وہی پالیسی اُلٹ ہو گئی ہے اور افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنے مستقبل کے لیے بطور 'اسٹرٹیجک ڈیپتھ 'کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے خیال میں افغان طالبان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جلد یا بدیر عالمی برادری ان کے خلاف ایکشن لے گی اور یہی ٹی ٹی پی کے جنگجو اپنے علاقوں میں انہیں پناہ فراہم کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان پاکستانی حکومت کے بارہا کہنے کے باوجود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

داؤد خٹک کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی صورت میں افغان طالبان کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ عالمی طاقتوں سے برسوں کی لڑائی کے دوران افغان طالبان کے سامنے ملک میں شریعت کے نفاذ کا مقصد تھا۔ اب جب کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں شرعی نظام کےنفاذ کی بات کرتی ہے تو انہیں افغان طالبان بھلا کیسے روک سکتے ہیں۔

داؤڈ خٹک کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کے جنگجوؤں کی حمایت حاصل ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے اپنے ایک پیغام میں تنظیم میں شامل ہونے والے نئےجنگجوؤں کو تاکید کی تھی کہ " پاکستانی مجاہدین کے علاوہ جو بھی مجاہدین جہادِ پاکستان میں مسلح شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیےنصیحت ہے کہ بعض سیاسی مشکلات کی بنا پر مسلح طور سے جہاد پاکستان کا حصہ بننے کی کوشش مت کریں۔"

داؤد خٹک کے مطابق مفتی نور ولی کا یہ پیغام افغان طالبان کو ہی تھا۔ کیوں کہ افغان سرحد سے ملحقہ خوست سے کنڑ تک کے علاقوں کا کنڑول پاکستانی طالبان کے ہی ہاتھوں میں ہے۔

داؤد خٹک نے مزید کہا کہ گزشتہ ادوار میں جب پاکستان سے طالبان کے خلاف کارروائی کا کہا جاتا تھا تو پاکستان کا ہمیشہ یہی کہنا ہوتا تھا کہ وہ طالبان کو بات چیت کے لیے تو بٹھا سکتے ہیں لیکن انہیں کسی کام پر مجبور نہیں کر سکتے ہیں۔اب یہی رویہ افغان طالبان اختیار کیے ہوئے ہیں جو ٹی ٹی پی کو بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا کہتے ہیں لیکن ان کے حملے روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتے۔

سابق آئی ایس آئی سربراہ جاوید اشرف قاضی کے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کالعدم تنظیموں کے ساتھ نرمی کا رویہ چھوڑ کر فوجی آپریشن کا سہارا لے اور جو کوئی بھی سرحد پار سے باڑ کی خلاف ورزی کرے اسے اسی وقت ختم کردینا چاہیے۔

انہوں نے ریاستِ پاکستان کا مشورہ دیا کہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو قیدی بنانے کے بجائے انہیں اسی وقت ختم کرنا چاہیے کیوں کہ جب قیدی بنایا جاتا ہے تو پھر بنوں جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

گزشتہ ہفتےخیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں تفتیش کے لیے لائے گئے زیر حراست کچھ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں سے اسلحہ چھین کرانہیں یرغمال بنالیا تھا۔ فوج کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں 25 شدت پسندوں کے علاوہ سات سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بنوں واقعے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا دور ختم ہو چکا ہے۔

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیرنے 23 دسمبر کو شمالی وزیرستان میں اگلی صفوں پر تعینات فوجی افسران واہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کی تمام ترتوجہ ملک بھرمیں امن وامان کی صورتِ حال بہتربنانے پرمرکوزہے۔ دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے انہی کی شروع کردہ لڑائی انہی کے گڑھ تک لے جائیں گے اوردہشت گردوں پرجنگ مسلط کردیں گے۔

XS
SM
MD
LG