داعش کے دو سابق کمانڈرجنھوں نے حالیہ دِنوں کے دوران افغان حکام کے سامنے ہتھیار ڈالے ’وائس آف امریکہ‘ کے ’آشنا ٹی وی‘ کو بتایا کہ اُنھوں نے اِس شدت پسند تنظیم میں نظریات کی بنا پر نہیں بلکہ زیادہ تر رقم کی خاطر شمولیت اختیار کی تھی۔
اُنھوں نے بتایا کہ اِس سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ داعش ایک گنجلک معاملہ ہے اور ہر خطے میں اُس کا انداز مختلف ہے۔
یہ دو اشخاص، سابق طالبان ہیں، جنھوں نے بتایا کہ اُن کا شام کی داعش سے کوئی رابطہ نہیں، ناہی وہ دنیا بھر میں خلافت پھیلانے کے دولتِ اسلامیہ کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔
ایک سابق کمانڈر کا نام عربستان ہے۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’میں پہاڑوں پر تھا۔ غربت تھی۔ ہم بے یار و مددگار تھے، اور بندوق کے زور پر زندہ تھے۔ ہمارے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ داعش نے ہمیں ہر ماہ 10000 پاکستانی روپے (تقریباً 100 ڈالر) کی تنخواہ پر رکھا۔ اس لیے، ہم اُس میں شامل ہوگئے‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ نے عربستان اور دوسرے ساتھی کمانڈر، زیتون کے اکاؤنٹ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی۔ انغان انٹیلی جنس کے عہدے داروں نےایک آرامدہ احاطے کے اندر اِن افراد کا انٹرویو لیا۔ افغان حکام اور قبائلی ذرائع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو اس بات کی تصدیق کی کہ اُنھوں نے داعش کے لیے کام کیا تھا۔
دولت اسلامیہ کا عدم برداشت
پچاس برس کے عربستان نے، جنھیںٕ زیادہ تر دیہی افغانوں کی طرح ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے، بتایا کہ وہ کبھی اسکول نہیں گیا اور اُن کے نو بچے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ داعش نے اُنھیں اور دیگر افراد کو پیسے کا لالچ دے کر اپنے حلقے میں شامل کیا۔
زیتون نے، جِن کا بھی ایک ہی نام ہے، بتایا کہ وہ تقریبا 40 برس کے اور غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ اُن کے آٹھ بچے ہیں اور داعش میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے 15 برس تک پہاڑوں پر رہے۔
لیکن، 10 تک داعش کے ساتھ کام کرنے کے بعد، دونوں کمانڈروں نے بتایا کہ وہ داعش کے انداز اور طریقہٴ کار کو مزید برداشت نہیں کرسکتے تھے اور افغان حکومت کے زیر سایہ محفوظ مقام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قبائلی سرداروں سے بات کی۔
انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق، افغانستان میں داعش کےتقریباً 2000 سے 3000 تک شدت پسند ہیں۔