رسائی کے لنکس

حقانی نیٹ ورک کےخلاف کارروائی کیے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں: تجزیہ کار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان پر مجوزہ تین بین الاقوامی کانفرنسوں کا ذکر کرتے ہوئے، تجزیہ کاروں نےکہا ہےکہ افغانستان کے حساس علاقوں میں حالیہ مربوط حملوں کے باعث، اِن اجلاسوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے

افغانستان کی موجودہ صورتحال کےحوالے سےآنے والےدِنوں میں کئی ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد ہونے والے ہیں۔ اِن میں سے پہلی کانفرنس 22ستمبر کونیویارک میں، دوسری نومبر کے مہینے میں ترکی کےشہراستنبول میں ، جب کہ تیسری پانچ دسمبر کو جرمنی کے شہر بون میں منعقد ہوگی۔

’وائس آف امریکہ‘سےگفتگو میں مختلف تجزیہ کاروں نےکہا کہ افغانستان کے حساس علاقوں میں حالیہ مربوط حملوں کےباعث، اِن اجلاسوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے-

اِس کےعلاوہ تجزیہ نگاروں نےافغانستان کی بظاہرابترصورتحال، امن وامان کےمسئلے، پاکستان اور افغانستان؛ اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ تناؤ کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی۔

پاکستان کےدفائی تجزیہ کار جنر ل (ر) طلعت مسعود کی نظر میں اِن کانفرنسوں میں افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال ، 2014ء کے بعد ہمسایہ ممالک کے کردار اورافغانستان میں جمہوری حکومت کی کارکردگی کا تجزیہ کیا جائے گا۔

افغانستان سےتجزیہ کار ، زبیر شفیقی اِس طرح کی کانفرنسوں سےکوئی زیادہ امید نہیں رکھتے۔اُن کے خیال میں اِن میٹنگز کے کبھی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔ اُنھوں نے کہا کہ اِن کانفرنسوں میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر یہ زور دینا چاہیئے کہ وہ، اُن کے بقول، خلوصِ دل سےامن کےقیام میں حصّہ لیں۔ اُنھوں نےمزید کہاکہ جب تک حقانی نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کاروائی نہیں ہوتی، علاقے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔

لیون پنیٹا نےبدھ کےروزکہا تھا کہ شدت پسندوں کےحقانی نیٹ ورک کا، بقول اُن کے، افغانستان میں ہلاکت خیز حملے کرنا اور پھر سرحد پار محفوظ ٹھکانوں میں روپوش ہو جانا،’ ناقابلِ قبول ہے‘ - اُنھوں نے الزام لگایا کہ پاکستان اِس شدت پسند گروپ کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہو گیا ہے – اُدھر، پاکستان نے امریکہ کی طرف سے اِس بیان کورد کرتےہوئے کہا ہے کہ امریکہ کا یہ بیان انسدادِ دشت گردی کی کوششوں میں دو طرفہ تعاون کا آئینہ دار نہیں ہے، اور یہ کہ پاکستان دنیا میں کہیں بھی ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہےاورانسدادِدہشت گردی کی کوششوں میں امریکہ سے تعاون جاری رکھنے پر تیار ہے ۔

جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ اگرعلاقےمیں بدامنی کی وجہ حقانی نیٹ ورک ہے، تو پاکستان کو اِس حوالے سے فیصلہ کرنا ہو گا-

پاکستانی تجزیہ کارڈاکٹر تنویراحمد خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پہلے ہی بہت قربانیاں دے چکا ہے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی شروع کر کےوہ اپنے لئے مزید محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہو سکتا-

اِس منظرنامے میں، تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سےہونے والی کانفرنسوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور تمام فریقین کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کےبجائے کلیدی مسا ئل پر سنجیدگی سےغور کرنا ہو گا اور مشترکہ اورقابلِ عمل حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG