رسائی کے لنکس

امریکی خارجہ پالیسی اور افغان جنگ


امریکی خارجہ پالیسی اور افغان جنگ
امریکی خارجہ پالیسی اور افغان جنگ

اوباما انتظامیہ کو خارجہ پالیسی میں جو ایک بنیادی سوال درپیش ہے وہ افغانستان کی جنگ ہے ۔ افغانستان کے بارے میں اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی کے تازہ ترین جائزے سے ظاہر ہوتا ہےکہ امریکی فوجیں اگلی جولائی میں شیڈول کے مطابق واپسی شروع کر سکتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ 2014 کے آخر تک تمام جنگی کارروائیوں کی ذمہ داری افغان سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دی جائے ۔۔ اگر حالات اس کی اجازت دیں۔

حکمت عملی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے، صدر اوباما نے حال ہی میں کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیئے کہ افغان ذمہ داری قبول کریں، امریکہ کی توجہ مسلسل ٹریننگ پر ہے ۔

ان کے الفاظ ہیں کہ افغان سیکورٹی فورسز میں اضافے کے اہداف پورے کیئے جا رہے ہیں۔اور چونکہ اتحاد میں شامل ہمارے شراکت داروں نے ہمیں مزید تربیتی عملہ دے دیا ہے، اس لیئے مجھے پورا اعتماد ہے کہ ہم اپنے اہداف پورے کرتے رہیں گے ۔

لیکن امریکہ کی میرین کور کے ریٹائرڈ جنرل انتھونی زینی کہتے ہیں کہ افغانستا ن میں سیکورٹی کی صورتِ حال ملی جُلی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک فوج کی تربیت کا تعلق ہے، یہ شاید ٹھیک طرح ہو رہی ہے، لیکن اس میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ پولیس کی تربیت کی حالت تشویش ناک ہے ۔ میرے خیال میں اس میں کافی محنت اور سرمایے کی ضرورت ہے ۔ اس میں بہت سے مسائل ہیں ۔ نہ صرف کوالٹی اور کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا بلکہ کرپشن بھی ختم کرنا ہوگا اور انہیں عوام کے ساتھ اپنے رابطے کو بہتر بنانا ہوگا۔ شاید یہ پروگرام ٹھیک طرح نہیں چلا ہے ۔

جنرل زینی اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ایک بڑا مسئلہ بے تحاشا کرپشن کا ہے اور اسے ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس میں بہت وقت لگے گا کیوں کہ یہ قیادت اور انتظامیہ میں ہر سطح پر موجود ہے ۔ آپ کو اسے اعلیٰ ترین سطح سے پکڑ نا ہوگا اور پھر سب سے نچلی سطح تک آنا ہوگا۔ یہ کام راتوں رات نہیں ہو سکتا۔ بد عنوانیاں ہر سطح پر اتنی زیادہ رچ بس گئی ہیں کہ ہمیں ہر چیز پرنظر رکھنی ہوگی۔

سابق وزیرِ خارجہ لارنس ایگل برگر جنھوں نے 1992 میں جارج ایچ ڈبلو بُش کی انتظامیہ میں خدمات انجام دی ہیں، یہ بات مانتے ہیں کہ افغانستان میں کرپشن کے خلاف جنگ کرنا بہت مشکل کام ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ہم کرپشن پر قابو پا سکیں گے۔ ہم نے دوسرے ملکوں میں کسی حد تک اس مسئلے پر قابو پایا ہے لیکن افغانستان میں یہ انتہائی مشکل کام ہے اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم 2014 تک اس پر قابو پا سکیں گے۔

ایگل برگرکو یہ شبہ بھی ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی میں کرپشن سے نمٹنے اور ملک کو چلانے کی صلاحیت ہے بھی یا نہیں اور کیا وہ امریکہ کے قابلِ اعتبار شراکت دار بن سکتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ فی الحال ان کے سوا اور کوئی ہے بھی نہیں۔ چنانچہ ہمیں انہیں پر انحصار کرنا ہوگا۔

ایگل برگرسے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ افغانستان میں بہت زیادہ پیسہ اور انسانی جانیں قربان کر رہا ہے ۔ انھوں نے کہا میں چاہتا تو یہی تھا کہ اس سوال کا کوئی صاف جواب دے سکتا ۔ لیکن میں بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ اب ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم وہاں اس وقت تک رہیں جب تک ہمیں وہ کامیابی حاصل نہ ہوجائے جس کی ہمیں امید تھی۔

ریٹائرڈ جنرل زینی کی نظر میں کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت قائم ہو جائے جس کی سیکورٹی فورسز طالبان جیسے انتہا پسندوں سے جنگ کر سکیں اورجن میں القاعدہ کو وہاں قدم جمانے سے روکنے کی صلاحیت ہو۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اس غلط فہمی کا شکارنہیں ہونا چاہیئے کہ ہم وہاں جیفرسن کے نظریے کے مطابق جمہوریت ، یا آزاد منڈی کی معیشت قائم کر سکیں گے۔

زینی یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کے حل میں لازمی طور پر پاکستان کو شامل کرنا ہوگا۔ افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کے جائزے میں، صدر اوباما نے کہا کہ پاکستان کی حکومت یہ بات سمجھتی ہے کہ اس کےسرحدی علاقے میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس سے علاقے کے تمام ملکوں ، خا ص طور سے پاکستان کے لیئے خطرہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پیش رفت خاطر خوا ہ تیزی سے نہیں ہوئی ہے ۔ ہم پاکستانی لیڈروں پر مسلسل زور دیتے رہیں گے کہ ان کی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے نمٹا جانا ضروری ہے ۔

XS
SM
MD
LG